لگتا ہے کہ طالبان نے وقت اور تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ 1994کے طالبان سے بہت مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ نہ عمارتوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور نہ مارکیٹوں اور سڑکوں پر لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ان کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ کیا وہ افغانستان کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق اس سر زمین کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا سکیں گے۔ سیا نے کہتے ہیں۔ جس بستی سے ایک بار موت گزرجائے وہاں زندگی کو نمو کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ ان کا یہ دکھ کئی نسلوں پر محیط ہے۔جب 42سال پہلے روس افغانستان میں داخل ہو اتھا تو لاکھوں لوگ اپنا دیس چھوڑ کر نقل مکانی کر گئے۔ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔ کتنے سال گزر ے وہ اداس زندگیاں گزاررہے ہیں۔ آج ایک بار پھر کابل ائیر پورٹ پر ہانپتے کانپتے اور جان کا خوف اپنی سانسوں میں سرایت کرتا محسوس کر کے سینکڑوں ہزاروں لوگ خوفناک اندیشوں میں گھرے کس طرح طیارے کے پروں اور پہیوں سے لٹک کر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ آپ سب نے ان طیارے سے دو انسانوں کو پھسلتے دیکھا تھا آخر کیا خوف تھا، یہ جانتے بوجھتے کہ موت حتمی ہے وہ اس مقام سے نکلنا چاہتے تھے۔ جان بچانے کے خوف سے موت کو گلے لگانے پر آمادہ تھے۔ اب بھی کابل ائیر پورٹ پر باہر جانے والوں کا ازدحام ہے اور یہ منظر دل دہلادینے کے لئے کافی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ سکتے کے عالم میں ہے۔ غرور زوال کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ جب کسی کو دردناک مثال بنانا چاہتا ہے تو وہ اسے مغرور کردیتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی غرور کے گھوڑے پر سوار تھے لیکن آج خوفزدوہ نظروں سے افغانستان کو دیکھ کر سٹپٹا رہے ہیں۔ طالبان اتنی جلدی کا بل پہنچ جائیں گے اس کا اندازہ انہیں نہیں تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے انجام کے علاوہ ان کے لئے کوئی ریلیف نہیں چھوڑا تھا اوررب العزت جس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ آسمان سے ٹوٹے تارے اور بنیاد سے اکھڑی قوموں کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ذرا غور فرمائیے ان کا یہ دکھ کئی نسلوں پر محیط ہے۔ میں نے پشاور کے قریب 80کی دھائی ان کے وہ خیمے دیکھے ہیں ،مٹی کی کچی دیواروں ٹین کی چھتوں ٹاٹ کے دروازوں اور دور تک پھیلے بوسیدہ خیموں کا ایک وسیع شہر تھا۔ میں نے دیکھا وہاں غربت، مسافرت، مظلومیت اور بے مقصدیت کے ڈھیرے لگے تھے۔ کسی چہرے پر گزرے وقت کی خوشحالی حال کا عزم اور مستقبل کی روشنی نہیں تھی۔ وقت بدلاہے تو کیسے؟ ہم اسے اللہ کی نصرت کہیں یا کرم۔ طالبان اتنی جلدی کابل پہنچ جائیں گے اس کا اندازہ امریکہ سمیت کسی کو بھی نہ تھا۔ 40سال سے ان تمام حالات سے جڑے ہونے کے باوجود ہم میں سے کوئی صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کر پایا۔ میں جب دنیا میں انقلابات کی تاریخ کے اوراق الٹتا ہوں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ وقت کیسے بدلتا ہے۔ ایران کی مثال لیں۔ ابھی انقلاب کی چنگاری کو شعلہ بننے میں کچھ وقت تھا۔شاہ ایران کا ایک جرنیل درویش صفت خمینی کے پاس آیا۔ تعظیم کی دوزانوہو کر بیٹھ گیا۔ درویش نے پوچھا ’’کیسے آنا ہوا؟‘‘جرنیل بولا ’’حضور ایلچی بن کر آیا ہوں‘‘درویش نے کہا’’جی فرمائیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘جرنیل نے سر جھکا کر کہا ’’حضور شاہ ایران نے پیش کش کی ہے۔ اگر آپ ہجرت کر جائیں تو آپ کے نان نفقہ کے لئے 2ملین ڈالر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ درویش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے چمکتی آنکھوں سے جرنیل کو دیکھا اور سر گوشی میں بولا ’’میری طرف سے شاہ کا شکریہ ادا کر دیجئے گا’’درویش ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر بلند آواز میں بولا ’’شاہ سے کہیے گا اگرو ہ نقل مکانی کر جائیں۔ تو انہیں بھی اتنی رقم پیش کروں گا جرنیل جھکا آداب کیا اور چلا گیا۔ دوسرے روز ابھی ظہر ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ وہی جرنیل واپس آیا اور ہاتھ باندھ کر دوریش کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ درویش نے سر اٹھا کر دیکھا کچھ دیر توقف کیا اور پھر پوچھا ’’شاہ نے آج آپ کو کیا حکم دے کر بھیجا ہے’’جرنیل نے کانپتے ہوئے لہجے میں عرض کیا’’حضور شاہ ایران پوچھتے ہیں اگر ہم یہ پیشکش قبول کر لیں تو آپ دو ملین ڈالر کہاں سے لائیں گے؟‘‘درویش کا چہرہ غصے سے تمتما گیا وہ کھڑا ہوا۔ شہادت کی انگلی سے جرنیل کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور کہا’’جا کر شاہ سے کہہ دینا میں ایران کی کسی شاہرا ہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کو آواز دوں گا ،اے اہل ایران اگر تم شاہ سے نجات چاہتے ہو تو دو دوتمن لے کر میرے پاس آجاؤ۔ میں تمہیں ہزاروں برس کی غلامی سے آزاد کرادوں گا درویش رکا۔ ٹھوڑی کے نیچے سے انگلی کھینچی اور واپس مڑ کر بولا۔ ’’ہاں کمانڈر مجھے یقین ہے شام تک دو ملین نہیں چا ر ملین ڈالر جمع ہو جائیں گے۔پھر دنیا نے حالات بدلتے دیکھے۔ شاہ کو ایران سے فرار ہوتے دیکھا۔ اور جب امام خمینی کو لے کر ائیر فرانس کا طیارہ تہران ائیر پورٹ کے قریب پہنچا تو طیارے کے کپتان نے کنٹرول ٹاور کوبتایاکہ مجھے رن وے نظر نہیں آرہا۔ صرف انسانوں کے سر نظر آرہے ہیں۔ ٭٭٭٭