افغانستان کے حالات لحظہ بہ لحظہ بدل رہے ہیں۔لیکن ایک بات یقینی ہے کہ طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنی قوت ایمانی سے شکست فاش سے ہمکنار کیا ہے۔ہم جیسے کمزور ایمان والے لوگوں کو بھی باور کروایا ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ایک چھوٹے اور کمزور گروہ کو اپنے سے بہت بڑے دشمن پر فتح دیدے۔ افغان طالبان نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔وہ نہ تو اپنے پچھلے دور حکومت کی طرح منہ زور ہیں اور نہ کشت و خون پر آمادہ۔اس دفعہ افغان طالبان کی سٹریٹجی نہایت سنجیدہ اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ افغان طالبان کی جو ہدایات نیچے والے کمانڈروں تک پہنچ رہی ہیں‘ ان سے فتح مکہ کے وقت رسول اکرمﷺ کی ہدایات کی خوشبو آ رہی ہے۔وہ زمینی فتوحات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں کو فتح کر رہے۔ اسی لئے بہت سے علاقے بغیر جنگ و جدل کے طالبان کے زیر نگیں آ رہے ہیں۔ وہ بڑے شہروں پر قبضہ کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔کیونکہ اس میں خونریزی کا خطرہ ہے۔ ویسے بھی کسی بھی گوریلا جنگ میں یا سول وار میں سب سے خطرناک کام شہروں کی جنگ ہوتی ہے۔عام طور پر شہروں کا محاصرہ کیا جاتا ہے اور دوبدو لڑائی سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس وقت طالبان کی نفسیاتی فتح تسلیم کی جا چکی ہے۔ خود صدر اشرف غنی کا یہ کہنا کہ ہم طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘ شکست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔جب دشمن ہتھیار ڈالنے کی آپشن پر سوچنا شروع کر دے تو وہ ہتھیار ڈالنے کی ہی علامت سمجھا جاتا ہے۔ امریکی فوج کا راتوں رات بگرام کے اڈے سے نہایت خاموشی سے فرار طالبان کی فتح ہی تو ہے۔ برطانیہ کے وزیر دفاع کا یہ بیان کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی صورت میں طالبان حکومت سے مراسم رکھنے کے لئے تیار ہوں گے،یہی ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنی شکست قبول کر لی ہے اور وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو شکست خوردہ تسلیم کر رہے ہیں۔جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے‘امریکہ اور یورپ کا ماضی گواہ ہے کہ انسانی حقوق کی جو پامالی یورپی ممالک نے کی ہے اس کا کوئی اور سوچ بھی نہیں سکتا۔رنگ و نسل کی جو تقسیم یورپی ممالک نے روا رکھی ہے،وہ ہماری عالمی تاریخ کا حصہ ہے۔ انسانوں کی تجارت اور کالے رنگ کے انسانوں کو جانوروں سے بدتر سمجھنا یورپ کی ہی روایت رہی ہے۔پہلے یہ یورپی انسانوں کو غلام بنا کر ان کا استحصال کرتے تھے۔ آج قوموں کو غلام بناتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی برابری کی سب سے بڑی مخالف یورپی یونین ہے۔ انسانی حقوق کا علمبردار بننے والا امریکہ دنیا میں انسانی خون بہانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ کروڑوں انسانوں کا خون امریکہ کے ہاتھ پر ہے۔ہیرو شیما اور ناگاساکی کا قصہ تو تھوڑا پرانا ہے۔ عراق اور افغانستان پر حملہ تو ابھی کل کی بات ہے۔WMDکی جھوٹی دلیل پر عراق کو نیست نابود کر دیا گیا اور اپنی جھوٹی انا کے لئے افغانستان کی کئی نسلوں کو جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ عراق کے بارے میں اتنے بڑے جھوٹ اور تباہی کو صرف ایک معذرت کے قابل سمجھا گیا اور لاکھوں انسانوں کا خون رزق خاک ہوا۔جیسے افغان طالبان نے اپنی تاریخ سے سبق سکھا ہے۔اسی طرح پاکستان نے بھی ماضی سے سبق سکھا ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان کے حکمران ایک دھمکی پر ڈھیر ہو گئے تھے لیکن آج پاکستان کی حکومت نے جس طرح امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا ہے، ناقابل یقین لگتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کو تو ابھی تک اپنی سماعت پہ یقین نہیں آ رہا کہ پاکستان ایسا کر سکتا ہے۔ فوجی اڈے دینے سے انکار کے علاوہ پاکستان جس طرح افغانستان میں امن کے لئے کوشاں ہے‘ وہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان اس مرتبہ اپنے فائدے کی نہیں سوچ رہا بلکہ خطے میں امن کے بارے میں متفکر ہے۔پاکستان کا موجودہ نظریہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اسی لئے پاکستان کو دوسرے ممالک سے بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ ازبکستان میں افغانستان کے معاملے پر ایک بلاک تشکیل دینے کا عندیہ ایک اجتماعی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے۔ افغانستان میں امن کے لئے ازبکستان‘ تاجکستان‘ ایران‘ پاکستان اور ترکی کا بلاک نہایت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان اب Strategic depthکے نظریے کو خیر باد کہہ چکا ہے اور صرف پاکستان کی بجائے خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے لئے مشکل وقت آ رہا ہے، افغان طالبان کی فتوحات جوں جوں بڑھ رہی ہیں‘حکمران اتحاد کی آپشنز محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اب طالبان اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی شرائط پر کوئی معاہدہ کریں۔ اب طالبان نے پیشکش کی ہے کہ اگر ان کے سات ہزار قیدی رہا کر دیے جائیں تو وہ تین ماہ کے لئے جنگ بندی کر سکتے ہیں۔راقم کا خیال ہے کہ یہ پیشکش بھی محدود مدت کے لئے ہے۔چند اور اضلاع پر قبضے کے بعد شاید طالبان اس پر بھی راضی نہ ہوں۔جس رفتار سے سرکاری فوجی ہتھیار ڈال رہے ہیں اور طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں‘اس سے لگتا ہے کہ سرکاری فوجیوں میں نہ تو لڑنے کا عزم ہے اور نہ اپنے نظریے کے ساتھ کوئی لگائو۔ صرف تنخواہ کے لئے تو کوئی فوج جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کر سکتی۔بھارت نے سرکاری فوج کواسلحہ اور بارود کی ترسیل کر کے خود کو طالبان کی نظروں میں گرا لیا ہے۔ جس رفتار سے بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے اہلکار افغانستان سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کا افغانستان کے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اور بھارت نے پاکستان کے بغض میں جو سرمایہ کاری افغانستان میں کی تھی وہ مکمل طور پر ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین اور ڈاکٹر نعیم نے اعلان کیا ہے کہ مجاہدین کو واضح ہدایات ہیں کہ عمارات اور عوامی سہولیات کو تباہ کرنا ممنوع ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیںاور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کریں گے۔ طالبان کا اعلان ہے کہ وہ اپنے مذہب اور قومی مفادات کی روشنی میں دنیا سے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ پاکستان نے افغان امن کانفرنس کے لئے تمام فریقین کو 18۔19جولائی کو مدعو کیا ہے۔ موجودہ افغان حکمران گومگو کی کیفیت میں تھی۔ حامد کرزئی نے شمولیت کی حامی بھر لی تھی۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ افغان حکومت سیاستدانوں کو پاکستان آنے سے روک رہی ہے۔ جس کے بعد پاکستان نے یہ کانفرنس ملتوی کر دی ہے ۔اب شنید ہے کہ عید کے بعد یہ کانفرنس ہو گی۔ اس کانفرنس کی کامیابی افغانستان میں امن کی بنیاد بن سکتی ہے۔