ہندوستان کی ریاست کپورتھلہ کے مستری محمد صدیق تحریک آزادی کا منفرد ، قابل ذکر اور معروف کردار تھے، آزاد منش ، درویش ،مولانا ابوالکلام آزاد بھی ان کے قریبی دوست بلکہ بڑی حد تک عقیدت مند تھے، کپورتھلہ کے سکھ راجہ اور اسکے مسلمان وزیراعظم بھی مستری صاحب کے قدردانوں میں تھے ، مستری صاحب کا قریب جنگل میں بسیرا تھا، چھوٹی سی جھونپڑی، جھونپڑی سے دور بڑی سڑک پر انہوں نے جلی حروف میں بورڈ لگا رکھا تھا، دائرہ ٔ امن وسلامتی۔یعنی ان کی جھونپڑی دائرۂ امن وسلامتی تھی، بورڈ کے نچلے حصے میں لکھا تھا، میں کسی طاغوت کے قانون کو ماننے اور اس کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں، تحریک آزادی نے زور پکڑا تو نہرو ، گاندھی ، پٹیل اور دوسرے ہندو لیڈر گرفتار کرلیے گئے تو دوسری طرف ابوالکلام آزاد اور دوسرے مسلم اکابرین بھی جیلوں میں ڈال دیئے گئے، مستری صدیق بھی ابوالکلام آزاد اور دیگر مسلم رہنماؤں کے ساتھ قید تھے اور انہیں باجماعت نماز پڑھایا کرتے تھے۔ سب گرفتار رہنماؤں کو قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھیں ، داروغہ جیل نے مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر قیدیوں کو سیر دو سیر مونج اور پٹ سن بطور مشقت بجھوائی کہ دن بھر میں خام پٹ سن اور مونج کی رسیاں بنائیں۔ سب قیدیوں نے اس مشقت کو قبول کرلیا لیکن مستری صاحب نے اپنے حصے میں آئی مونج کی گٹھڑی اٹھا کر جیلر کے قدموں میں پھینک دی اور کہا میں آپ کی طرف سے دی گئی مشقت کو قبول نہیں کرتا ، میں انگریز کی حکومت اور اس کے قوانین کو بھی نہیں مانتا، اسی وجہ سے جیل آیاہوں۔ اگر مان لیتا تو جیل ہی کیوں آتا۔جیل میں آکر حکم ماننا تھا تو باہر ہی مان لیتا۔ داروغہ جیل سے مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ مستری صاحب سے الجھنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ چنانچہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کی مشقت ختم ہوگئی لیکن وہ پورا دن دوسرے قیدیوںکا ان کی مشقت میں ہاتھ بٹایا کرتے، دن بھر دوستوں کی مدد کرکے ان سے بھی زیادہ مشقت جھیلتے مگر یہ جیلر کے دباؤ کی بجائے مستری صاحب کا رضاکارانہ فیصلہ تھا، وہ جیل میں رہ کر بھی اپنی آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے: بنا لیتا ہے موجِ خونِ دل سے اک چمن اپنا وہ پابندِ قفس جو فطرۃً آزاد ہوتا ہے روسی حملہ آوروں سے آزادی کی جنگ میں زخم زخم افغانستان کو چند لوگوں کی ہوسِ اقتدار نے نہ ختم ہونیوالی خانہ جنگی میں جھونک دیا۔ خانہ جنگی کی وجہ سے غیرت مند، بہادر افغانوں کا وطن ویرانہ بنادیا گیا تو مدرسے کے مہربان استاد ’’ملا عمر ‘‘ نے اپنے بدنصیب مگر غیور ہم وطنوں کی مدد کرنے اور انہیں نہ ختم ہونیوالی مصیبت سے نکالنے کا ارادہ کیا تو اسکے شاگردوں نے استاد کی آواز پر لبیک کہا ، جوق در جوق مدرسوں کے طالب علم امڈ آئے اور دوسرے نوجوان بھی جان نذرانہ لیے حاضر ہوگئے۔ ملا عمر اپنے پیروکاروں کے ہمراہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا جنگجوسرداروں کے درمیان آہنی دیوار بن کر حائل ہوگئے، ملا عمر نے ایک ایک گاؤں ، ضلع ، صوبہ اور شاہراہ جنگجوؤں کے قبضے سے چھڑائے اور افغانستان کے دارالحکومت پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت سے دارالخلافت میں بدل دیا۔ ملا عمر نئی اسلامی مملکت کے پہلے خلیفہ مقرر ہوکر افغانستان کے حکمران ہوئے۔ تھوڑے سے شمالی افغانستان میں جنگ جاری رہی اور باقی پورے ملک اور اسکے عوام نے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنی قسمت انہیں سونپ دی، چند مہینوں میں امن قائم ہوگیا، وہی افغانستان جو صدیوں سے اسلحہ اور منشیات کا مرکز تھا جہاں سے ہزاروں میل دور دراز ملکوں میں ہیروئن، چرس اور افیون کی ترسیل ہوا کرتی تھی، چشم زدن میں منشیا ت اور اسلحہ سے پاک کرکے پرامن ملک بنادیا گیا، اس پاکباز حکومت ، صاف دل مہربان حکمرانی کو پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ امریکا کے اندر ایک مشکوک حادثے کی ذمہ داری افغانستان پر تو ڈالی نہ جاسکی مگر اس کے مہمان اسامہ بن لادن کو مجرم قرار دے کر امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ ملا عمر کی حکومت امریکا کی دھمکی کو خاطر میں لائی ، نہ سعودی عرب کی دولت سے متاثر ہوئی، نہ پاکستان کی سفارش کچھ کام آئی۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا یہ ہماری روایات اور دین کے اصولوں کے خلاف ہے کہ ایک مہمان کو جو ہماری پناہ میں ہے دشمن کے سپرد کردیں تاوقتیکہ اس کے خلاف واضح، ٹھوس ثبوت پیش نہ کردیا جائے۔ پوری دنیا اس چھوٹے سے ملک پر حملہ آور ہوگئی ۔ انسانی تاریخ کا پہلا اور انوکھا واقعہ ہے جب 195ممالک کے سات ارب انسان چھوٹے سے افغانستان پر پورے قہر وغضب کے ساتھ ٹوٹ پڑے۔ ان جرار لشکروں کی سربراہی امریکا کے سپرد تھی ۔ طالبان کی حکومت ختم کردی گئی مگر انہوں نے اسامہ بن لادن کو حوالے کیا نہ حملہ آوروں سے رحم کی بھیک مانگی، نہ ہار ماننے پر آمادہ ہوئے، ایک ممولاشہبازوں کے لشکر کے خلاف لڑگیا، ڈٹا رہا، ایک دو دن ، ہفتہ عشرہ بھی نہیں، پورے بیس برس پوری نسل لڑتی رہی حتی کہ جنگ کے دوران پیدا ہونے والی نسل نے جوان ہوکر اپنے آباء کے مورچے سنبھال لیے ۔ حملہ آور ایک ایک کرکے دم دبائے بھاگتے رہے اور آخر میں امریکا نام نہاد سپر پاور محفوظ رستے اور جان کی امان کے لیے دست بستہ حاضر ہوا ، شکست کی سیاہی چہرے پر لیے ۔ طالبان پھر سے خلافت اسلامیہ کا پرچم لیے کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، جب دشمن فتحیاب تھے کابل کی حکومت جاتی رہی مگر طالبان کی حکومت سے اپنی شرائط نہیں منوا سکے ۔ آج شکست کی ذلت کے ساتھ بھاگتے وقت فتحیاب طالبان سے اپنی شرائط منوانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بھی پاکستان کی درخواست کے عوض ، اور وہ شرائط ہیں کہ افغانستان میں طالبان ’’وسیع البنیاد ‘‘حکومت قائم کریں۔ آج کے کرۂ ارضی پر کم وبیش دوسو ملک ہیں جن میں 193اقوام متحدہ کے رکن ہیں، ان ممالک میں درجنوں نظامہائے حکومت مروج ہیں مگر کسی نظام میں وسیع البنیاد حکومت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ، نہ پہلے کبھی تھا ،نہ قریب کے زمانے میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اس خیالی نظام کو افغانستان کے طالبان کے ذریعے اپنے ملک پر نافذ کرنے کے لیے اصرار کیا جارہا ہے ۔جب طالبان کی زندگیاں خطرے میں تھیں، ان کی حکومت چھینی جارہی تھی، وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے پر مجبور تھے، اس وقت انہوں نے امریکا اور اتحادیوں کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو آج جب وہ فتح یاب ہیں اور دشمنوں کی صفیں الٹ گئیں، وہ اپنی جان سلامت لے جانے کے لیے سرپٹ بھاگ رہے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ طالبان ان کی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے؟ طالبان رہنماؤں کی بھی کچھ حدود ہیں ، رہنما اپنے عوام اور جنگجوؤں کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ فیصلے نہیں کرسکتے، جنہوں نے بیس برس خون دے کراپنے غداروں اور بیرونی حملہ آوروں کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کیا وہ اپنی صفوں میں ملک وقوم کے غداروں کو کیوں شامل کرنے لگے؟ جن غداروں کے ہاتھ مجاہدین کے بھائی بند وں کے خون سے رنگے ہیں۔طالبان مزید دس بیس برس جنگ جاری رکھ سکتے ہیں‘ مگر غداروں اور مخبروں کو کبھی اپنی صفوں میں شامل نہیں کریں گے جبکہ ان کی وفاداریاں اب بھی دشمن ملکوں کے ساتھ ہوں!