وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے حوالے سے افغانستان میں پھیلائے جانے والے بعض خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں کوئی گروہ پاکستان کا منظور نظر نہیں۔افغان قیادت جو فیصلہ کرے گی پاکستان اس کا احترام کرے گا۔ افغان سپیکر سے گفتگو کے دوران وزیر خارجہ نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ طویل ہو سکتا ہے لہٰذا صبر کا دامن نہ چھوڑیں‘ انہوں نے مشورہ دیا کہ دونوں ملکوں کو باہمی تجارت کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ افغانستان تاریخی ‘جغرافیائی اور مذہبی حوالے سے دنیا کے باقی ممالک کی نسبت پاکستان سے زیادہ قربت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کو پچھلے 73برس کے دوران جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں بھی کئی حوالوں سے یگانگت ہے‘ یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو ہر بار تبھی پذیرائی ملی جب پاکستان کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ سوویت یونین نے جب افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی مدد کے نام پر اپنی افواج بھیجیں اس وقت امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے اس عمل کی تزویراتی تشریح کی۔ تجزیوں میں ظاہر ہوا کہ اگر سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو عالمی سطح پر طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک دفاعی لحاظ سے طاقتور سہی لیکن انہیں ایک کامیاب مشن کے لئے پاکستان سے تعاون درکار تھا۔ راہداری ‘ افرادی قوت ،فضائی حدود کا استعمال اور انٹیلی جنس معلومات کے لئے پاکستان پر بھروسہ کیا گیا۔پاکستان نے دنیا میں قیام امن اور کمزور ریاستوں کو طاقتوروں کی جارحیت سے بچانے کے مقصد سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو صف آرا کرنے کا کام پاکستان نے انجام دیا اور یہ جنگ پاکستان کی وجہ سے جیتی گئی لیکن جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تو امریکہ تنہا فاتح کے طور پر سامنے آیا۔ پاکستان اور افغان مجاہدین کو تباہ شدہ نظام اور برباد ڈھانچے کے ساتھ چھوڑ کر امریکہ واپس چلا گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ جب دوبارہ افغانستان میں آیا تو حالات اس کے حق میں نہیں تھے‘ پہلے افغان عوام کو تقسیم کیا گیا۔ طالبان کے مخالف گروہوں کو اہمیت دی جانے لگی۔ طالبان نے شروع میں روپوشی اختیار کی۔ بعدمیں نئے سرے سے مزاحمتی تحریک کو منظم کیا۔ افغان طالبان نے مالی اور دفاعی وسائل سے لیس اتحادی افواج کے لئے افغانستان میں حالات اس حد تک ابتر کر دیے کہ ان ملکوں کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس دوران خود افغان عوام کے پاس کچھ نہیں رہا‘ سب کچھ کھنڈر ہو گیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کر رہا ہے۔ القاعدہ کو دہشت گرد تنظیم بتایا گیا اور اسامہ بن لادن کو اس کا سربراہ بتایا گیا۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی ٹاپ لیڈر شپ کو قتل کرا دیاہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی مقاصد کب کے پورے ہو چکے لیکن طالبان نے پیشقدمی کرتے ہوئے اتحادی افواج سے افغانستان کا پچاس فیصد علاقہ چھین رکھا ہے۔ امریکہ یونہی نکل جائے تو اسے شکست خوردہ تصور کیا جائے گا اس لئے وہ اپنی شکست کو امن معاہدے میں فاتح کے طور پر رقم کرنے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اس طرح استوار رکھا کہ جس کام کو سونپا اس کی رپورٹ بھارتی ایجنٹوں سے حاصل کرنا شروع کر دی۔ بھارت نے اس حیثیت کا فائدہ اٹھایا اور افغانستان میں ایسے اڈے قائم کر لئے جو پاکستان مخالف سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پاکستان کو زچ کرنے کے لئے بھارت اور امریکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے اور کشمیریوں کے لئے پاکستانی حمایت کو دہشت گردی کی سرپرستی قرار دیتے رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے پہلے صدر باراک اوبامہ اور پھر موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان سے محفوظ انخلا میں مدد دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے ایک طرف واضح کیا کہ افغان تنازع کا امن مذاکرات کے سوا کوئی حل نہیں‘ دوسری طرف افغان طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کو قائل کیا کہ وہ قیام امن کی خاطر امریکہ سے بات کریں۔ پاکستان نے افغانستان میں امن کی خاطر سب سے زیادہ انحصار افغان طالبان پر کیا کیونکہ یہ افغان طالبان ہی ہیں جو اس وقت بھی آدھے افغانستان پر قابض ہیں۔ پاکستانی حکام نے حزب اسلامی اور دوسری سابق جہادی جماعتوں اور گروہوں کو اعتماد میں لے کر بین الافغان مذاکرات کے لئے طالبان کو آمادہ کیا۔ یہ مذاکراتی سلسلہ باربار التواء کا شکار ہو رہا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ رکاوٹیں زیادہ دیر موجود نہیں رہتیں۔ افغان حکومت‘ طالبان ‘ جہادی گروپوں ،امریکہ اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان نے بیک وقت رابطوں کا ایک موثر نظام بنا رکھا ہے جو افغان امن عمل کی نشو و نما میں مفید ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے پاکستان کا دورہ کیا‘ ان کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس سے پاکستان کے کردار سے حسد میں مبتلا طاقتوں نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ پاکستان افغانستان میں اقتدار اپنے کسی پسندیدہ گروہ کو تفویض کرانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی گمراہ کن باتوں سے دوسرے افغان گروہ پاکستان سے بدظن ہو سکتے ہیں اس لئے پاکستان کی وضاحت سے بے بنیاد خدشات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔