وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تمام فریقین جنہوں نے افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے وہ غیر حقیقی ٹائم لائن کی مخالفت کریں۔ پاکستان کی ترقی و استحکام افغانستان میں پائیدار امن سے مشروط ہے۔ بدقسمتی سے کم و بیش نصف صدی سے افغانستان اندرونی خلفشار اور بیرونی پراکیسز کی وجہ سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کے دور اقتدار میں اگر کچھ عرصہ کے لئے افغانستان کو امن نصیب ہوا بھی تو امریکی جارحیت نے ایک بار پھر طویل خانہ جنگی اور تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ پاکستان کا روز اول سے ہی اصولی موقف ہے کہ افغانستان کا امن کثیر الفریقی مذاکرات اور افغان عوام کی منتخب حکومت کے قیام میں مضمر ہے۔ یہ پاکستان کے اصولی موقف کی جیت ہے کہ امریکہ کو 19سال کی جنگ کے بعد افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بیٹھنا پڑا اور پاکستان اور امریکہ کی باہمی کاوشوں سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ طویل خانہ جنگی کے بعد امن مذاکرات کوئی آسان کام نہیں اس منزل تک پہنچنے کے لئے پاکستان اور امریکہ نے بہت محنت کی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ الیکشن سے پہلے افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں اس نازک مرحلے میں افغانوں کو تنہا چھوڑنا امن کو متاثر کر سکتا ہے۔ بہتر ہوگا امریکہ سمیت عالمی برادری افغانستان میں پائیدار امن کے لئے مربوط حکمت عملی مرتب کرے تاکہ امن عمل کامیاب ہو اور خطہ ترقی کر سکے۔