گزشتہ کالم میں مولانا قیام الدین خادم کی رحلت اور شاعری پر روشنی ڈالی گئیبیسویں صدی میں افغانستان کے ادبی افق پر جن چھ ادیبوں اورشعراء نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ادبی حلقوں میں وہ ستاروں کے نام سے مشہور ہیںان میں مولانا قیام الدین خادم بھی شامل ہے۔مولاناخادم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے کیونکہ وہ بیک وقت عالم دین بھی تھے ،پکے نیشنلسٹ بھی تھے ،شاعر وادیب اور ایک اچھے انسان بھی تھے۔ اُن کے نثری اور شعری فن پارے پڑھنے کے بعدقاری پہلی فرصت میں ان کی افغانیت،وطن دوستی اور ملی تفاخر کو بھانپ لیتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی انسان دوستی اور روشن فکری کامعترف بھی ہوجاتاہے۔ پچھلے دو تین سال ضلع لکی مروت اور بنوں کے ادب کے لئے مسلسل عام الحزن ثابت ہوا- تین برس قبل پروفیسر رحمت اللہ درد چل بسے جن کی رحلت سے پشتو غزل کے میدان میں ایک نہ پر ہونے والا خلاء پیدا ہوا - پچھلے سال ضلع لکی مروت ہی سے تعلق رکھنے والا ایک اور درویش صفت شاعر عمر دراز مروت اللہ کو پیارے ہوگئے- مرحوم عمر دراز بھی یاروں کے یار اور ہر دلعزیز شاعر تھے- رواں سال چند ہفتے پہلے ضلع بنوں کے بزرگ خوش آواز شاعر و ادیب غازی سیال کی ارتحال کی خبر آئی جس کی موت نے بھی ادبی حلقوں کو خاصا سوگوار کردیا - چار روز پہلے رات کو پھر سوشل میڈیا پر ایک لکی مروت کے نہایت خوش خلق اور نامور شاعر افگار بخاری کی شہادت کی روح فرسا خبر سوشل میڈیا پر چل پڑی - سید ظہور شاہ المعروف افگار بخاری چونکہ شیعہ المسلک تھے یوں غالب گمان یہی ہے کہ مرحوم فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے ظالموں کی گولی کا نشانہ بن گئے ہیں - لکی مروت کے اس منکسر المزاج اور محفلوں کی روح کو گرمانے والے شاعر اس سے پہلے بھی فرقہ پرستوں کے قاتلانہ حملوں کی زد میں آئے تھے تاہم اس مرتبہ قاتل ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا ،انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شہید افگار بخاری مسلکی اعتبار سے بیشک سنی العقیدہ نہیں تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شیعوں سے زیادہ سنی المسک لوگوں میں محبوب اور مقبول تھے - افگار نے اپنے آپ کو فرقہ پرستی کی لعنت سے اس حد تک مبرا کیا ہوا تھا کہ ان کے جنازے میں نہ صرف بے شمار سنی عقیدہ کے لوگوں نے شرکت کی بلکہ ان کی نماز جنازہ بھی ایک سنی عالمِ دین مولوی نے پڑھائی ۔ افگار بخاری نے 1962 کو لکی مروت کے ایک محترم پشتون خاندان میں آنکھ کھولی، آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہوں نے شعر کہنے کا ملکہ مسخر کردیا - پہلے اردو زبان میں شعر کہنا شروع کیا جبکہ بعد میں کلاچی کے ممتاز شاعر مرحوم طاہر کلاچوی کی شاعری کے اتنے فین بن گئے کہ خود بھی پشتو زبان میں شعر کہنے اور لکھنے کا آغاز کیا - ان کی شاعری پر عوامی رنگ اگرچہ زیادہ غالب تھی لیکن کمال کا غزل لکھتے تھے - ظلم و بربریت سے نفرت اور امن و بھائی چارے کا پرچار شہید افگار بخاری کی شاعری کی نمایاں خصوصیات تھیں - سردار علی ٹکر اور استاد خیال محمد جیسے معروف پشتو موسیقاروں کے علاوہ بے شمار دیگر موسیقاروں نے ان کی غزلیں اور گیت گائے ۔ چند سال پہلے اپنی ایک انٹرویو میں افگار بخاری نے کہا تھا کہ وہ مختلف شعری اصناف یعنی غزل، نظم، مثنوی، رباعی اور فولکلور میں اتنی زیادہ شاعری تخلیق کرچکا ہے کہ اس سے کئی مجموعے بن سکتے ہیں لیکن موسیقی کے ساتھ زیادہ تعلق کی بنا پر وہ ابھی تک اپنی شاعری کو کتابی شکل نہیں دے پایا ہے - افگار بخاری کی شہادت سے پشتو ادب مزید سپیس پیدا ہوا جو انتہائی افسوس ناک ہے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم بخاری کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی پسماندہ فیملی کو صبر وتحمل عطا کرے - اس مختصر کالم کے اختتام پر میں اپنے قارئین کے لئے شہید افگار بخاری کی ایک مشہور پشتو غزل اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں، لا می چی زڑگی تہ را نزدے نہ وے لا مو چی تر منزہ فاصلے نہ وے مابہ درنہ سر صدقہ کڑے وے تاتہ کہ پیغور د زمانے نہ وے ترجمہ: کاش ! تم یا تو میرے دل میں بسیرا نہ کرتے ، اب جب میرے دل میں جگہ بنا لی ہے تو پھر ہمارے بیچ اتنے فاصلے نہ ہوں- تم پر اپنی جان فدا کردینا میرے لئے بڑا آسان ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ پھر تم زمانے کے طعنوں سے کیسا نجات پاسکوگے؟ افگار بخاری کیونکر سرنگوں حالت میں ایسے آٹھ آٹھ آنسو بہاتے اگر تیری خوبصورت آنکھیں ایسی خوابیدہ نہ ہوتیں " ایک اور غزل میں کیا خوب منظر کشی کرچکے ہیں ترجمہ: اسے کہہ دو کہ ایک مرتبہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ جائے تاکہ انہیں دیکھ کر میری روح سہولت سے پرواز کر جائے ۔ افگار جب تیرے قدموں کے نشانات کے اوپر محبت کا سجدہ کرلیتا ہے تو ان کی پوری زندگی کی تھکاوٹ ایک لمحے میں نکل جاتی ہے"۔ ٭٭٭٭٭