آج یوم اقبالؒ ہے۔ اہل پاکستان کے لئے 9نومبر کا سب سے اہم حوالہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا یوم پیدائش ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے قومی تصورات پاکستانی قوم کے فکری اثاثے ہیں۔ ان کی شاعری مسلمان نوجوانوں کو سست اور کاہل نہیں بناتی وہ نوجوانوں کو ہوشیار کرتے ہیں۔ ہر عہد میں علامہ محمد اقبالؒ اہل پاکستان کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔1930ء میں خطبہ الہ آباد کے موقع پر انہوں نے اس امر کی خواہش کی کہ برصغیر کے وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں انہیں ایک الگ مسلم ریاست کی شکل دیدی جائے۔ آج کا پاکستان انتشار اور بے چینی کا شکار ہے۔ وجہ یہی کہ اس ملک کی فکری رہنمائی کرنے والے اکابرین کی سوچ سے قوم دور ہو رہی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے عہد کا ہندوستان انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ سے عبارت تھا۔ مسلمان سیاسی طور پر بیدار ہو رہے تھے مگر وہ کسی مضبوط تنظیم اور موثر قیادت سے محروم تھے۔ سرسید نے قوم کی پسماندگی دور کرنے کے لئے تعلیمی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ان کے طفیل مسلمان اپنی الگ حیثیت اور منفرد شناخت کو بحال کرنے کی کوشش میں تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت کانگرس نے خود کو تمام ہندوستان کے لوگوں کی نمائندہ بنا کر انگریز سے حقوق واپس لینے کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔ مگر اس سے جڑا دوسرا سچ یہ تھا کہ کانگرس کے فیصلہ ساز حلقوں میں مسلمانوں سمیت دیگر عقاید کے مالک افراد کو نظر انداز کر کے ہندو مفادات کو اولیت دی جاتی۔1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس جماعت کے ایجنڈے میں الگ وطن جیسا کوئی نکتہ شامل نہیں تھا فقط مسلمانوں کے لئے ہندوئوں کے برابر حقوق کی بات کر کے انگریز سرکار سے وفاداری کا اعلان کیا گیا۔ اس جماعت اور مسلمان قوم کو اپنی منزل کا راستہ علامہ محمد اقبالؒ نے دکھایا۔ اقبالؒؔ کا تصور پاکستان کیا ہے۔ اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے۔ ’’ہندوستان کے اندر اور باہر کی دنیا پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس ملک میں محض معاشی مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نقطہ لحاظ سے یہ اہم ضرور ہے… میں ہندوئوں پر یہ حقیقت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کی سیاسی چالیں خواہ کتنی ہی لطیف کیوں نہ ہوں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے تشخص سے دور نہیں رکھ سکتیں۔‘‘(20مارچ 1937) ایک دوسرے خط میں اقبالؒ یوں رقمطراز ہیں: ’’اسلامی قوانین کے طویل اور محتاط مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ان قوانین کو صحیح طور پر سمجھ کر بروئے کار لایا جائے تو کم از کم ہر شخص کی بنیادی احتیاجات پوری کرنے کی ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن اسلامی شریعت کا نفاذ اور اس کی نشو و نما ایک مسلم مملکت یا مملکتوں کے قیام کے بغیر ناممکن ہے۔ کئی برسوں سے میرا یہ ایماندارانہ عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میں اسے درست سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے روٹی اور ہندوستان کے لئے امن اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘ اقبالؒ کا تصور پاکستان ایسی ریاست ہے جہاں محروم طبقات کی خبر گیری ریاست کرتی ہے‘ جہاں معاشی اور سیاسی آزادی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو کر سامنے آتی ہے۔ اس ریاست میں امیر اور غریب کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا اور انصاف کسی ایک طبقے کے لئے ریشم اور دوسرے کے لئے فولاد نہیں بن جاتا۔ حضرت اقبالؒؔ نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا تاکہ وہ آزادانہ اور آبرومندانہ زندگی گزار سکیں لیکن اس منزل تک لے جانے کے لئے انہیں جن اوصاف کا حامل لیڈر درکار تھا وہ قائد اعظم کے سوا انہیں کوئی دوسرا دکھائی نہ دیا۔ آج پاکستان گوناگوں فکری‘ سیاسی اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پاکستانی قوم ریاست اور قوم کے اجتماعی مفادات کی بجائے کچھ سیاستدانوں کی ذاتی اغراض کی قیدی بن چکی ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کی صورت میں جسے مسلمانوں کا قائد چنا آج دنیا اس کی دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے۔ اقبالؒ کا تصور پاکستان درست ثابت ہوا اور انہوں نے بحرانوں سے نجات کے لئے جس نوع کی قیادت کی نشاندہی کی وہ بھی درست ثابت ہوئی۔ بدقسمتی سے آج ہماری فکر اور قیادت کا انتخاب غلط ثابت ہوتے ہیں جس کی وجہ فکر اقبالؒ سے رہنمائی نہ لینا ہے۔ جو تدابیر ریاستی استحکام کے لئے ازحد ضروری ہیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ قوم اور ہجوم میں یہی فرق ہے۔ قوم کا نظریہ ہوتا ہے، اس کے نظریہ ساز ہوتے ہیں۔ منزل کا نشان ہوتا ہے اور منزل کی طرف لے جانے والے رہنما ہوتے ہیں۔ اقبالؒ نے قیادت کے اوصاف بتا دیئے۔ قائد کا کردار بتا دیا۔ آج ٹامک ٹوٹیاں مارتی قوم اس فکری اثاثے سے رجوع کیوں نہیں کرتی۔ پوری قوم تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ ایک جماعت برسر اقتدار آ کر جو کام شروع کرتی ہے دوسری اقتدارمیں آ کروہ ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ کوئی ایسا دانشمند دکھائی نہیں دیتا جو کشمیر پر ڈاکہ ڈالتے بھارت‘ زوال کی شکار معیشت اور تقسیم در تقسیم کی شکار قوم کو متحد کر سکے۔ یہ ملک جس تصور کے ساتھ قائم ہوا اسی تصور سے ہم آہنگ فکر ہی اس کے استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے۔