سن ساٹھ کی دہائی میں مزنگ لاہور میں ایک حلقۂ احباب ادب ہوا کرتا تھا جس کے ہفتہ وار اجلاس رفاہِ عام گرلز ہائی سکول(مزنگ) میں ہوا کرتے تھے۔ میں اور میرے دوست جناب شاہد شیدائی اس حلقے کے اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ اسی حلقے کے ایک اجلاس میں ایک نوجوان شاعر نے تنقید کے لیے اپنی غزل پیش کی۔ غزل پڑھ کر میں چونک اٹھا۔ سانولے رنگ کا یہ نوجوان شاعر نہایت غریب گھرانے کا فرد دکھائی دیتا تھا۔ لگتا تھا جیسے کوئی مزدور ہو۔ اب میں کبھی اس کی غزل پڑھتا اور کبھی اس کی طرف دیکھتا۔ غزل کسی پختہ کار شاعر کی معلوم ہوتی تھی۔ خیالات میں جدت اور طرزِ اظہار انتہائی مؤثر اور جدید اس کی غزل کا اپنا ہی جداگانہ لہجہ اور انداز تھا اور اس پر کسی بھی پرانے یا نئے شاعر کی چھاپ محسوس نہ ہوتی تھی۔ ان دنوں منیر نیازی، ظہیر کاشمیری، قتیل شفائی، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی، فیض، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ظفر اقبال اور چند اور مشہور شاعر ادبی منظر پر چھائے ہوئے تھے۔ میں خود بھی تھوڑی بہت شاعری کرتا تھا جس پر ترقی پسند تحریک کے شعراء کی چھاپ تھی لیکن جب میں نے اس نوجوان کی غزل پڑھی تو حیران رہ گیا کہ اتنی کم عمری میں اس شاعر نے اپنا لہجہ دریافت کر لیا تھا۔ غزل پر شاعر کا نام لکھا تھا۔ اقبال ساجد۔ بحث کے دوران میں نے غزل کو جدید طرزِ اظہار اور شاعرانہ پختلی کی حامل قرار دیا۔ اجلاس کے بعد میں نے اقبال ساجد کو ساتھ لیا اور ایک معمولی سے ٹی ہائوس میں بیٹھ کر گفتگو کرنے لگے۔ وہ نہایت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ریواز گارڈن لاہور میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اس کی رہائش تھی۔ یہ فلیٹ کرانے کا تھا۔ ساجد کا کوئی خاص ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ کوئی ملازمت بھی نہیں تھی۔ تعلیم میٹرک سے بھی کم تھی۔ ملازمت کیا ملتی۔ دوست احباب کی مدد سے وہ زندگی کا پہیہ رواں رکھے ہوئے تھا۔ انہی دنوں آمدنی کا ایک اور ذریعہ بھی اس کے ہاتھ لگ گیا۔ چند نام نہاد شعراء چوری چھپے اس سے غزلیں خرید کر اپنے نام سے چھپوانے لگے۔ ساجد عموماً دس روپے فی غزل وصول کرتا تھا۔ بعض شعراء دس روپے سے زیادہ بھی دے دیتے لیکن آفرین ہے اقبال ساجد پر کہ اس نے کبھی کسی خریدار شاعر کا نام نہیں لیا۔ وہ جو غزلیں بیچتا تھا اس کے عام معیار سے ذرا کم ہوتی تھی لیکن پھر بھی نہایت اچھی ہوتی تھیں۔ ایک صاحب کے شعری مجموعے میں تو تقریباً سبھی غزلیں اقبال ساجد کی تھیں۔ میرے ساتھ گہری دوستی کے باوجود اس نے کبھی کسی شاعر کا نام نہیں لیا تھا۔ میں نے بھی کبھی اصرار نہیں کیا تھا۔ ساجد اکثر اوقات میری کسی غزل، نظم وغیرہ کی بھی بہت تعریف کرتا۔ میں سمجھ جاتا کہ اب اس تعریف کے مقطع کے بعد دس بیس روپے کا مطالبہ ہو گا لہٰذا میں کبھی اس کی تعریف سے گمراہ نہیں ہوا تھا۔ من آنم کہ من دانم والی بات تھی۔ اگر کبھی اسے میرا کوئی شعر واقعی پسند آ جاتا تو اس کی تعریف میں خلوص نمایاں ہوتا۔ ورنہ زیادہ تعریف سیاسی طرز کی ہوتی تھی۔ وہ اقلیم سفر میں اپنی اہمیت سے خوب واقف تھا۔ انہی دنوں اس نے یہ شعر کہا ؎ ندیم و فیض و فراق و فراز کچھ بھی نہیں نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں اس شعر پر احتجاج کا مسلسلہ شروع ہوا تو اس نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ اس شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں سوالیہ نشان(؟) ہے۔ غربت کی وجہ سے اسے بہت تلخ اوقات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ اقبال کا بھی زیادہ قائل نہیں تھا لیکن اس کے اس مصرعے کو بہت پسند کرتا تھا ع ’’ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘‘ اس کا سفری مجموعہ اس کی وفات کے بعد جنگ پبلشر نے چھاپا۔ کاش یہ کام اس کی زندگی میں ہو جاتا۔اب میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ حلقۂ احباب ادب کے ایک اجلاس میں۔ میں نے ایک طنزیہ مزاحیہ مضمون تنقید کے لیے پیش کیا۔ مضمون سن کر جناب ظہور فاروقی(مرحوم) نے فرمایا۔ ’’مضمون واقعی مزاحیہ ہے۔ سن کر ہنسی آتی ہے‘‘۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا لیکن بعد میں شاہد شیدائی نے تنہائی میں مجھے اس جملے کا مطلب سمجھایا تو مجھے از حد صدمہ ہوا۔ میرے منہ سے نکلا ’’کتنے افسوس کی بات ہے‘‘۔ میں فاروقی صاحب کی اتنی عزت کرتا ہوں اور انہوں نے میرے طنزیہ مزاحیہ مضمون کو طنز و مزاح کا نشانہ بنا ڈالا۔ فاروقی صاحب کے بعد حلقے کے سیکرٹری محمود الحسن نامدار نے کہا ’’مظفر بخاری نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ایم اے انگریزی کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کا مضمون سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایم اے کی پڑھائی کے بوجھ تلے دبا ہونے کی وجہ سے وہ فی الحال ادب عالیہ تخلیق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بہرحال اسے کوشش جاری رکھنی چاہیے اور نتیجہ اللہ اور قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔ اس اجلاس میں اقبال ساجد بھی موجود تھا۔ جس سے ابھی زیادہ تعلقات نہیں بنے تھے۔ نامدار کی بات سن کر اقبال ساجد بولا ’’یہ زیادتی ہے، ایک نو عمر ابھرتے ہوئے مزاح نگار کے ساتھ یہ رویہ درست نہیں، مظفر بخاری کا مضمون طنز و مزاح کا اعلیٰ نمونہ ہے‘‘۔ ’’آپ تو دیر سے آئے تھے۔ آپ نے تو پورا مضمون سنا ہی نہیں‘‘۔کسی نے کہا ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں نے مضمون کا جو حصہ نہیں سنا وہ میں بعد میں سن لوں گا‘‘۔ یہ سن کر اقبال ساجد نے اسے غصے سے دیکھا جس کی وجہ بعد میں میری سمجھ میں آئی۔ اجلاس کے اختتام پر میں اور اقبال ساجد باتیں کرتے کرتے ایک ٹی ہائوس میں جا بیٹھے۔ ’’اب تم مجھے اپنا پورا مضمون سنائو‘‘ اقبال ساجد نے کہا ’’ہاں ہاں ضرور‘‘ میں نے کہا، پھر میں نے چائے کا آرڈر دیا۔ اقبال ساجد نے چائے کے لوازمات کا کہہ کر آرڈر مکمل کر دیا۔ میں مضمون پڑھ رہا تھا اور اقبال ساجد اشیائے خورونوش پر ہاتھ صاف کر رہا تھا۔ وہ گاہے گاہے کہتا تھا ’’واہ! بہت خوب! بہت اچھا، مزا آ گیا‘‘۔ میں یہ سن کر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اگلے روز میں نے ساری بات شاہد شیدائی کو سنائی تو اس نے کہا ’’وہ تمہارے مضمون کی نہیں، پر تکلف چائے کی تعریف کر رہا ہو گا۔‘‘ اس یادگار نشست کے بعد ہم باہر آ گئے۔ باتوں باتوں میں وہ مقام بھی آ گیا جہاں ہماری راہیں جدا ہوئی تھیں۔ ’’چائے کا بل دے کر تمہارے پاس کچھ بچا کہ نہیں؟ کہو تو میں کچھ دوں؟‘‘ ’’نہیں نہیں، اقبال بھائی، میرے پاس اب بھی 20روپے ہیں‘‘۔ ’’20روپے؟ چلو دس مجھے دے دو‘‘۔ ’’یہ لیجیے‘‘ میں نے دس کا نوٹ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’اچھا بخاری، خدا حافظ‘‘ تمہارا مضمون نہایت خوبصورت تھا۔ تم ایک روز دوسرے پطرس بخاری کہلائو گے‘‘۔ ’’آپ کا طریقہ واردات‘‘ بھی نہایت خوبصورت ہے‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا۔ آخر میں اس کے دو شعر سنیں: جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں ہمارا حوصلہ دیکھو، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں ٭٭٭٭٭ دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا ہم نے تو شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا