یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں میرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو دشمنی میں بھی ایک خوبصورتی ہوتی ہے کوئی رکھ رکھائو ہوتا ہے اور کوئی خاندانی انداز ہوتا ہے۔ مجھے اچانک منیر نیازی یاد آ گئے کہ ایک مرتبہ ایک شخص آیا اور آتے ہی گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا’’نیازی صاحب میں تو آپ کا معتقد ہوں ایسے ہی لوگوں نے مجھے آپ کا دشمن مشہور کر دیا ہے‘‘ نیازی صاحب بولے اوئے کمبخت میں نے تجھے دشمن بنانے میں 15سال صرف کئے کیا میں وہ 15سال ضائع کر دوں؟‘‘ اس نے کہا جی میں تو آپ کی بہت عزت کرتا ہوں‘‘ نیازی صاحب بے ساختہ کہنے لگے تم میرا اور کر بھی کیا سکتے ہوں‘‘ منفرد تھے نیازی صاحب ایک مرتبہ کراچی کے ایک صحافی کے جواب میں کہ آپ کراچی سے کسی کو بڑا شاعر نہیں مانتے مگر جون ایلیا کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟ کہنے لگے’’خیال کا تو مجھے معلوم نہیں وہ جہاں بھی مجھے دیکھتا ہے درخت پر چڑھ جاتا ہے‘‘ اس پر میں نے بھی احتجاج کیا تھا کہ یہ فقرہ نیازی صاحب کو نہیں کہنا چاہیے تھا مگر بعدازاں ایک محفل میں جب میرے سامنے جون ایلیا صاحب نے حسن رضوی سے کہا کہ اسے یاد ہے وہ انبالہ کے مشاہرہ میں چھلانگ لگا کر اس کے کاندھے پر چڑھ گئے تو مجھے درخت والی بات یاد آنے لگی۔ معزز قارئین! آپ حیران ہونگے کہ میں نے کوئی جواب دعویٰ لکھنے کا پروگرام بنایا ہے۔ حضور : بات یوں ہے کہ ہمارے اظہار الحق صاحب کا ایک کالم نظر نواز ہوا تھا جس میں انہوں نے ہمارے ایک ٹی وی دانشور کو مشورہ دیا تھا یا اپنی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اب گرواپ کر جائیں۔ لیجئے ایک مرتبہ پھر منیر نیازی یاد آ گئے کہ ایک مرتبہ مبارک احمد کی ساٹھویں سالگرہ پر وہ مبارک احمد صاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بڑے ہو کر وہ کیا کریں گے۔ بندہ کیا کرے ہر کسی کے اندر ایک بچہ تو موجود رہتا ہے: ایک بچہ مرے اندر بھی چھپا بیٹھا ہے روٹھ جاتا ہے میں جب اس کو منانا چاہوں میں کہاں کرتا ہوں کہ ہر شخص کو اقبال کہاں نصیب ہوتا ہے۔ اقبال سب پر کھلتا ہی نہیں ۔ یہ لوگ کب سے جوش کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں ہمارے دوست نے لکھا ہے کہ ایک ہزار جوش مل کر بھی ایک اقبال کے برابر نہیں۔ انور مقصود ذہین آدمی ہیں اور انہوں نے اپنی ذہانت کو خوب خوب استعمال کیا ہے۔ ایک بات سعدی نے بھی کہی تھی کہ یہ ہنسنا لیکن دوستوں کے لئے چھوڑ دو۔ یہ طنزو مزاح کے سکرپٹ لکھنا اور لوگوں کو ہنسانا اپنی جگہ ایک کام ہے اور آپ اس میں کامیاب ہیں۔ علی سردار جعفری نے کہا تھا کہ اقبال کی قرطبہ کی جامع مسجد اردو ادب کی سب سے بڑی نظم ہیں۔ علی سردار جعفری سے 25سال کے بعد پھر پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی رائے پر قائم ہیں تو علی سردار جعفری نے کہا کہ ہاں۔ ظاہر ہے یہ علم والے لوگ تھے اور صاف گوئی پر یقین رکھتے تھے۔ اقبال کا مرتبہ تو آپ فیض سے پوچھیں جو کہتے ہیں کہ اقبال چھت پر بیٹھا ہے اور ہم نیچے کھڑے ہیں۔ فیض صاحب نے ہی کہا تھا: آیا ہمارے دیس میں اک خوش نما فقیر آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اُتر گیا اقبال تو ہر دور میں اقبال رہے گا اور اس کا نظریہ بھی جو محمود اور ایاز کو ایک یہ صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔