ان دنوں خوب میلے سجے ہیں۔ شہر میں کئی تقریبات ہوئیں۔ حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ایک تو یوم اقبال تھا۔ مرکزیہ مجلس اقبال اسے بڑے اہتمام سے مناتی ہے۔ اس بار فیصلہ ہوا کہ عمران خاں کو زحمت دی جائے۔ وہ پہلے بھی آچکے ہیں۔بلکہ ان کی کتاب کی تقریب رونمائی ایوان اقبال کے اسی ہال میں ہوئی تھی۔ اس دن مجھے اچانک فی البدیہہ تقریر کے لیے بلوا لیا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم ہائوس سے اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم نے تو خود وزیر اعظم ہائوس میں یوم اقبال کی تقریب رکھی ہوئی ہے۔ جانے کیوں خیال آیا کہ چلو وزیر اعلیٰ پنجاب کی رونمائی کرتے ہیں۔ پہلے بھی تو یہاں پنجاب کے وزرائے اعلیٰ آتے رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے اسٹاف نے اس پروگرام کی تصدیق کر دی۔ آخری وقت تک رابطے میں رہے۔ مگر ایک دن پہلے معذرت کر لی۔ یہ قلندروں اور فقیروں کی محفل ہوتی ہے۔ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کھچا کھچ بھرے ہال نے ہماری ہی تقریروں پر اکتفا کر لیا۔ اس جلسے میں اوریا مقبول جان نے ایک بڑے پتے کی بات کی کہ دنیا میں کم شاعر یا دانشور ایسے ہوئے ہوں گے جو انسان کی اس وقت انگلی پکڑتے ہیں جب وہ بچہ ہوتا ہے پھر بلوغت کی سب منزلیں طے کرتے ہوئے اسے آخر تک لے جاتے ہیں۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا مری سے شروع ہو کر وہ اقبال کے فارسی کلام سے گزرتے ہوئے۔ اس منزل تک لے آئے کہ: کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ہر ہر مرحلے پر اقبال نے جو رہنمائی کی وہ اس کی نشاندہی کرتے گئے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ شکوہ میں اقبال اپنے عروج پر ہیں۔ مگر جواب شکوہ میں وہ نکتہ نہیں۔ اوریا کا مگر یہ کہنا تھا کہ شکوہ تو بہت سے لوگ اپنے انداز میں اپنے رب سے کیا کرتے ہیں‘ مگر جواب شکوہ کو اس سخن وری سے بیان کرنا بہت مشکل کام ہے جو صرف اقبال نے کیا۔ یہ بالکل ایک نیا پیراڈائم ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اوریا کے بعد (بلکہ پہلے بھی) تقریر کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ مرحلہ اکثر آ جاتا ہے۔ آج بھی مجھے اوریا کے فوراً بعد تقریر کرنا تھی۔ میں نے اسی میں عافیت جانی کہ چند گھسی پٹی باتوں کو دہرا دوں۔ مثلاً یہ کہ قائد اعظم سے جب پوچھا گیا کہ انہیں سلطنت (یعنی پاکستان) اور اقبال میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ کس کا انتخاب کریں گے۔ جناح کا جواب تھا کہ میں اقبال کا انتخاب کروں گا۔ مطلب یہ تھا کہ اگر اقبال ہے تو ہم کئی پاکستان بنا سکتے ہیں۔ مگر اقبال کے بغیر پاکستان بنا روح کا ایک ملک ہو گا۔ اقبال کی فکر نہیں تو پاکستان بہت سے ملکوں کی طرح کا ایک ملک ہے۔ اور یہ اقبال کی فکر ہی ہے جو پاکستان کو پاکستان بناتی ہے۔ اور اسے دوسرے ممالک سے ممیز کرتی ہے: خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی جناب عارف نظامی صاحب بڑے اہتمام کے ساتھ اس تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم تو بس گورننگ باڈی کے ارکان ہیں‘ تاہم ایوان اقبال کے ایڈمنسٹریٹر وحید انجم بڑے جذبے کے ساتھ اس تقریب کو شایان شان بناتے ہیں۔ اس بار بھی خوب رونق لگی تھی۔ ایک دوسری تقریب جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں اس سے ابھی لوٹا ہوں۔ یہ ایک سیمینار تھا جو ذوالفقار راحت نے ترتیب دیا تھا۔ فواد چودھری کو مہمان خصوصی بنایا تھا اور جناب سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی صدر محفل تھے۔ ضیاء شاہد‘ راغب حسین نعیمی‘ قیوم نظامی‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی‘ فرخ سہیل گوئندی‘ مقررین کی ایک قطار تھی۔ ظاہر ہے یہ سیمینار ایک خاص پس منظر میں تھا۔ کوئی بات تجریدی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ٹھوس صورت حال ہوتی ہے۔ اس کا موضوع تھا۔ عدم برداشت کا رجحان اور ریاست کی ذمہ داری۔ مطلب صاف ظاہر تھا کہ گزشتہ دنوں جو سڑکوں پر توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ یہ سب مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے حالانکہ مذہب اس سے ہٹ کر رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں وہ سب باتیں بھی دہرائی گئیں کہ ہمارے ہاں مذہب تلوار سے نہیں پھیلا‘ صوفیا کی محبتوں بھری تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ ایسی مثالیں بھی دی گئیں جس میں ہماری تنگ نظری کا تذکرہ تھا اور مغرب کی کشادہ دلی کے اشارے تھے۔ اس پر کسی کو انکار ہو سکتا ہے۔ خاکسار نے مگر عرض کیا کہ یہ ضروری ہے کہ سمجھ لیا جائے کہ عدم برداشت کہتے کسے ہیں اور اس کی حدود قیود کیا ہیں۔ یہ لفظ جسے برداشت کہتے ہیں دراصل Toleranceکے معنوں میں استعمال ہوا ہے‘ تو یہ جو ہمارے عزیز فواد چودھری کہتے ہیں کہ کرپشن کے بارے میں نوٹالرینس کی پالیسی چلے گی۔ تو اس سے کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں کرپشن کے خلاف رویہ قابل قبول نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بعض معاملات میں برداشت مستحسن نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے اقبال نے کہا تھا کہ ایک برداشت تاریخ دان کی ہے جس کے لئے سب مذہب ایک جیسے ہیں اور ایک فلسفی کی ہے‘ جس کے لیے کوئی مذہب ہوتا ہی نہیں۔ اس طرح چلتے جائیے اور اس برداشت کے بارے میں تجزیہ کرتے جائیے۔ بعض قومیں بعض معاملات میں بالکل رواداری برداشت نہیں کرتیں۔ ہم اپنے ملک کے بارے میں عدم برداشت کا شکار نہیں ہو سکتے۔ ہم اپنے نبی ؐ کے بارے میں کچھ برداشت نہیں کر سکتے‘ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عدم برداشت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اپنے مذہب اور ملک کے بارے میں لاپروا ہو جائیں۔ رویوں میں فرق ہے۔ عصبیت کو جہالت کہا گیا ہے‘ مگر بصیرت کے ساتھ عصبیت ایک دولت ہے۔ ابن خلدون نے اسے قوموں کے وجود کے لیے ضروری بتایاہے۔ عرض کیا قوم پرستی بری شے ہے۔ مگر حب الوطنی ایک مطلوب جذبہ ہے۔ فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ قوم پرستی میں آپ پہلے دوسروں سے نفرت کرنا سیکھتے ہیں‘ پھر اپنے آپ سے محبت کا سوچتے ہیں۔ حب الوطنی میں پہلے آپ خود سے محبت کرتے ہیں‘ کسی اور کی مخالفت اس کے بعد آتی ہے۔ ہم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اپنے مذہب سے بے گانہ ہو جائو تو آپ روادارگنے جائو گے۔ امریکیوں نے خاص طور پر ماڈریٹ اسلام کا شوشا چھوڑا تھا۔ جب المغرب میں عرب بہاراں کی تحریک چلی تو اس بات پر خوش تھے کہ تیونس اور مراکو میں تو اسلام کا ماڈریٹ ماڈل چل رہا ہے۔ مراکو میں تو شاید وہاں کی ’’اسلامی حکومت‘‘ نے یہ کہہ دیا تھا کہ سیاحت چلتی رہے گی کہ یہ ہماری سب سے بڑی صنعت ہے‘ یہاں نہ شراب پر پابندی ہو گی۔ نہ ساحل سمندر پر عورتوں کے بکنی پہنے پر اور نہ سود پر۔مغرب بڑا خوش تھا کہ یہ ہونا چاہیے ‘برداشت کا راستہ۔ کسی امریکی ہی نے اس پر پھبتی کسی تھی کہ جو جتنا ہمارے قریب ہے‘ وہ اتنا ماڈریٹ ہے۔ یہاں ایک مثال دی اپنے ایک دانشور کالم نویس کی جو مرحوم ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے بتایا کہ وہ طیب اردوان سے ملنے گئے اور ان کا فریج کھولنا چاہا تو انہوں نے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردوان شراب نہیں پیتے مگر اپنے غیر ملکی مہمانوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس طرح دوسری مثال انہوں نے یہ دی کہ ملائشیا میں کھلے بندوں عام گوشت کے ساتھ لحمِ خنزیر بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں یہ رواداری کی مثالیں تھیںیہ ماڈریٹ اسلام کا ظہور تھا۔ میں نے اس زمانے ہی میں لکھا تھا کہ اسلام کو کشادہ دل سمجھنے کے لیے ان مثالوں سے خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ کسی نے بتایا انہوں نے ویٹیکن میں اجازت لے کر نماز پڑھی۔ کسی کو اعتراض نہ تھا۔ عرض کیا‘ حضورؐ نے اپنے مسیحی مہمانوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور عبادت کی اجازت دی۔ مسلمانوں کو یہ نہ سمجھائو کہ فلاں فلاں باتوں کو برداشت کرو۔ انہیں یہ بتانا کافی ہے کہ تمہیں اپنے نبیؐ کی ناموس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا‘ مگر طریقہ وہ اپنانا ہے جس کی حضورؐنے تلقین کی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا دوسروں کے خدائوں کو برا نہ کہو‘ وہ تمہارے خدا کو برا کہیں گے۔ سو ایک روایت میں یہ ہے کہ دوسروں کے رہنمائوں کو برا نہ کہو۔ وہ تمہارے رہنما پر طعن کریں گے۔ کچھ اور باتیں بھی عرض کی تھیں۔ فواد چودھری نے کرم کیا اور مری ایک بات کا حوالہ دے کر کوئی بات کی۔ مجھے سمجھ آ گئی ہوتی تو ضرور عرض کرتا۔ مطلب اس وقت صرف یہ ہے کہ اپنے دین سے اور اپنے وطن سے محبت کرو۔ مگر اس کی خاطر وہ رویہ نہ اپنائو جس کی نہ دین اجازت دیتا ہے نہ اس ملک کا آئین۔ یہ ہے حقیقی اور سچی رواداری۔