ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی اردوان نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ لیڈر ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے لفظوں میں دل رکھ دیتا ہے۔ اس کے عمل میں توانائی ہوتی ہے اور اس کے پیغام میں صبح جیسی نوید ہوتی ہے۔ گفتگو سے نیت ظاہر ہوتی ہے اور شفاف باطن منعکس ہوتا ہے۔ کبھی بیدی کا افسانہ نہ پڑھا تھا اپنے دکھ مجھے دے دو‘اردوان نے حقیقت میں ہم پاکستانیوں کو یہی باور کروایا ہے کہ ہمارے دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ کشمیر کی حیثیت ترکی کے لئے بھی وہی ہے جو پاکستان کے لئے ہے۔ یعنی وہ جو حضرت قائد نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی شہ رگ ہے۔ مسلمانوں کے ضمن میں طیب اردوان پہلے بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ انہوں نے تو ٹرمپ کا فلسطین کے حوالے سے ثالثی منصوبہ رد کر دیا ہے۔انہیں اور مہاتیر کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ عدم نے کہا تھا: مصالحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے اردوان نے کتنی بے لاک اور دلیرانہ رائے دی کہ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے منصوبہ ثالثی کا نہیں بلکہ قبضہ کا ہے۔ یہ ہے مومن کی فراست کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے جو تمام مفادات و ترغیبات طاق پر رکھ دیتا ہے ہم دیکھتے نہیں کہ ہمارے دوسرے اسلامی رہنما کیسے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں بلکہ ان کے رویے پر شرم آتی ہے۔بالکل کٹھ پتلیوں کی طرح یا مرجان دست آموز کی طرح۔ وہ حرکتیں کرتے ہیں کہ جیسے حمیت کی رمق تک ان میں سے سے ختم ہو چکی ہے۔ لیڈر جرات مند اور بے باک ہو تو قوم ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے بلکہ قوم کو وہ ایستادہ کر دیتا ہے۔ لیڈر اپنی سچائی اعتماد اور کردار سے وجود پاتا ہے۔ یقینا اردوان نے ہمیں ایک ولولہ تازہ دیا ہے کہ زندہ وہی رہتے ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے۔ کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ۔ کچھ باتیں نوٹ کرنے والی ہوتی ہیں کہ وہ آپ کی شخصیت اور اجتماعی شعور کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے کہ اردوان نے ترکی زبان میں تقریر کی اور ترجمان نے اس کا ترجمہ کیا۔ حالانکہ اردوان یورپ کے ساتھ رہنے کے باعث بہتر انگریزی بول سکتا ہے۔ مگر زندہ قومیں اپنی شناخت اور پہچان پر سودے بازی نہیں کرتیں مائوزے تنگ نے تبھی تو کہا تھا کہ چین گونگا نہیں‘ اس کی اپنی زبان ہے۔ ایک ہم ہیں کہ بس اپنی ہی صورت کو بگاڑ۔بار بار کی یادداشتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ہم اپنی پہچان اور شناخت غلامانہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ساری کارروائی انگریزی میں اور تقریر انگریزی میں۔اس کے باوجود کہ عمران خان بارہا انگریزی کو غلامی کی علامت کہہ چکے۔بہت آسانی کے ساتھ خلیل مترجم مل سکتے تھے۔عمران خاں کو اپنی قومی زبان ہی میں خطاب کرنا چاہیے تھا۔ اپنے قومی وقار کا خیال رکھنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ آخر ہمارے لئے غلامی میں کون سی ایسی لذت رکھی ہوئی ہے۔ شاید ہم نے انڈر ٹیکنگ دی ہوئی ہے۔ ایک اور بات بہت اہم تھی کہ ترک صدر اردوان نے اقبال کو حوالہ بنایا۔ پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں علامہ اقبال کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اس حوالے سے برادر اعجاز الحق اعجاز نے خوبصورت پوسٹ لگائی کہ ترک صدر نے اقبال کو شاعر اعظم کا لقب دیا۔ انہوں نے اقبال کی نظم ’’حضور رسالت مآبؐ‘‘کے اشعار پڑھے اور بتایا کہ اس نظم نے مسلمانوں میں کیسا جذبہ اور ولولہ بھر دیا ہے۔ یہ نظم اقبال نے 1911ء میں جنگ طرابلس کے تناظر میں لکھی اور بادشاہی مسجد کے ایک بڑے مجمعے میں سنائی۔ لوگ بے اختیار دھاڑیں مار کر روتے رہے۔ اردوان نے کہا کہ یہ نظم ترکی قوم پر احسان ہے: گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام و کہنہ عالم میں سے آشنا نہ ہوا فرشتے بڑھ کے رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضورؐ آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو کہا حضورؐ نے اے عندلیب باغ حجاز کلی کلی ہے تری گرمیٔ نوا سے گداز خیر یہ نظم بانگ درا سے پڑھی جا سکتی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ کہ اہل فکر و دانش کوئی صدر بھی ہو سکتا ہے یا پھر صدر اردوان جیسا بھی کہ جو اقبال شناس ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جنہوں نے اقبال کو درخور اعتنا بھی نہیں سمجھا۔ اس سے متعلق یوم اقبال کی چھٹی ختم کر دی بلکہ اقبال ہی کی سلیبس سے چھٹی کروا دی۔ دوسری طرف اردوان ہی کیا ایران کا انقلاب علامہ کے سخن سے ہوتا۔ ایرانی اقبال کے عاشق ہیں۔ میسولینی جیسے اس سے متاثر تھے۔ ہمارے ہاں تو اقبال صرف قوالوں کے ہاتھ چڑھتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اقبال کی فکر سلیبس کا حصہ ہو۔ جیسے سید قاسم علی شاہ نے کہا کہ پرائمری سے ایم اے تک سیرت رسولؐ پڑھائی جائے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی ایجوکیشن پالیسی مرتب کی تھی کہ ہر مضمون کی بنیاد قرآن و سنت سے اٹھائی جائے۔ اقبال کا پورا فلسفہ ہی تحرک پر مبنی ہے اور زندگی سے بھر پور ہے مگر حکمران اقبال کو کیا سمجھتے ہیں!ابھی ایک زبردست بیداری کی ضرورت ہے۔ ہمارے عمران خاں تو اتنی زبردست صورت حال میں بھی کنٹینر سے نہیں اترے۔ وہ آئے روز کوئی نہ کوئی لطیفہ چھوڑتے ہیں یا کوئی شوشہ۔ کوئی سنجیدگی اور ٹھہرائو ان کی بات میں نہیں۔ اب یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کرپٹ نہیں۔انہیں کرپٹ کون کہتا ہے یہ بھی درست کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ مسئلہ تو ان کرپٹ لوگوں کا ہے جو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کافی سرمایہ کاری کر کے اب چینی اور آٹے کا بحران پیدا کر کے پیسے واپس وصول کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں جو کرپشن کرتے ہیں‘ فوج کا ڈر انہیں ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کرپشن کرنے والے تو اللہ سے نہیں ڈرتے۔اب تو کرپشن کرنے والوں کو فوج کا بالکل ہی ڈر نہیں۔ اب خان صاحب نے فضل الرحمن پر آرٹیکل 6کا مقدمہ چلانے کی بات کر کے آ بیل مجھے مار والی خواہش ظاہر کی ہے۔ خود خان صاحب نے بھی حکومت گرانے کی کوشش کی تھی۔آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں۔ خان صاحب کو اب بڑے ہو جانا چاہیے اور اپنے آپ کو وزیر اعظم تسلیم کر لینا چاہیے۔ اپنے مصاحبین کو گالی گلوچ سے اوپراٹھانا چاہیے۔ وگرنہ مخالفت میں بھی عبدالقادر پٹیل جیسے لوگ سامنے آئیں گے اور پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ آپ سے تو شہباز شریف سمجھدار ہیں کہ اردوان کے دورے پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ ان کے دور میں اردوان آپ کو نہیں بھاتا تھا۔ آخری بات یہی کہ خان صاحب کو بھی مہاتیر اور اردوان کی طرح پورے عزم کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے۔ دنیا بھی دلیر اور نڈر کی عزت کرتی ہے۔ اک نہ اک روز اتر جائیں گے ہم لہروں میں اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی ہم کو جلنا ہے بہر طور سحر ہونے تک اک تماشہ ہی سہی ایک نظارا ہی سہی