استادِ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی سے عرض کیا کہ آج کے دور کے نوجوان کی رہنمائی کے لیے کیا علامہ اقبال نے کچھ فرمایا ہے؟ اقبال کی شاعری اور فلسفے کی تہہ تک اترنے والے اقبال شناس کا جواب تھا کہ بڑا شاعر اور فلسفی اپنے زمانے ہی کی نہیں آنے والے زمانوں کی بھی بات کرتا ہے اور یوں بھی ہم ابھی تک اقبال کے ہی عہد میں زندہ ہیں۔ اُستادِ محترم کے جواب پر غور کیا تو بات سمجھ میں آئی کہ مرشد اقبال تو زمان و مکان کی اس تقسیم کو نہیں مانتے اور نہ ہی روز و شب کے ان پیمانوں کو تسلیم کرتے ہیں جو ہم نے اپنی سہولت کے لیے بنا رکھے ہیں۔ اسی لیے تو علامہ نے فرمایا تھا: زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم آج بھی اقبال کا اضطراب وہی ہے بلکہ اگر آج علامہ بنفس نفیس ہمارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کا اضطراب اور مسلمانوں کی حالت زار پر ان کی تشویش اور پریشانی کئی گنا بڑھ چکی ہوتی۔ اقبال غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے ساری زندگی مسلمانوں کو درس خودی دیتے رہے، انہیں اپنی عظمت رفتہ یاد دلاتے رہے، نوجوان مسلم کو تدبر کرنے پر آمادہ کرتے رہے اور اسے اُس گردوں کی سیر کراتے رہے جس کا وہ ایک ٹوٹا ہوا تارا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمان تقریباً دنیا کے ہر خطے میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ مسلمانوں کے گلے میں مغرب کی استعماری قوتوں کی غلامی کا طوق تھا۔ اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں مسلمان انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے تھے۔ برصغیر میں تو اقبال نے نہ صرف مسلمانانِ ہند کو اپنی شاعری اور اپنے فلسفے سے بیدار کیا بلکہ برطانوی استعمار سے نجات کے لیے ان کی عملی اور سیاسی رہنمائی بھی کی۔ شعرائے کرام بالعموم اپنی سوئی ہوئی قوم اپنے کلام سے جگاتے تو ضرور ہیں مگر نشانِ منزل اور حصول منزل کے لیے کسی پرجوش اور مخلص رہنما کا انتخاب اپنی قوم پر چھوڑ دیتے ہیں مگر اقبال نے یہاں شاعر اور فلسفی سے بڑھ کر ایک سچے مصلح کا کردار بھی ادا کیا اور اپنی قوم کی ڈولتی ڈوبتی نیّا کو کنارے لگانے کے لیے انہوں نے نہ صرف نشان منزل بلکہ منزل کا تعین بھی کر دیا اور کارواں کی رہنمائی کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں میر کارواں کی نشاندہی بھی کر دی۔ مسلمانوں کی اس ابتری، غلامی اور پسماندگی اور پژمردگی نے ہی تو مرشد کو بے چین کر رکھا تھا۔ اسی لیے انہوں نے فرمایا تھا ؎ محبت کا جنوں باقی نہیں ہے مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے بیسویں صدی میں مسلمانوں کی استعمار سے سیاسی رہائی اور مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں تیل کی دولت سے آنے والی خوش حالی کے بعد تو امت مسلمہ کے عمومی حالات میں نہ صرف بہتری بلکہ بہت بڑی تبدیلی آنی چاہیے تھی مگر اقبال کی آرزو نہ صرف پوری نہ ہوئی بلکہ امت مسلمہ کے حالات بد سے بد تر ہو گئے۔ اِکّا دُکّا ممالک کو چھوڑ کر جہاں جہاں مسلمانوں کو سیاسی آزادی نصیب ہوئی وہاں وہاں مسلمانوں کی گردنوں میں استعماری طوق کی جگہ مطلق العنانی کا طوق ڈال دیا گیا۔ اس وقت مسلمان حکمران ہر جگہ بدترین قسم کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں۔ برطانوی استعمار کی جگہ اب ریموٹ کنٹرول امریکی استعمار نے لے لی ہے۔ اپنے لیے تو مغرب نے حقیقی جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا ہے اور مسلمانوں بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک کے لیے انہوں نے جمہوری قوتوں کے بجائے آمریتوں اور بادشاہتوں کو اپنے سایۂ عاطفت میں پناہ دی ہے۔ ان عرب ممالک میں جہاں کہیں جمہوری اسلامی قوتیں سر اٹھانے لگتی ہیں وہاں یہ استعماری قوتیں اپنے غلام آمروں اور غلاموں کے ذریعے ان قوتوں کا سرکچل دیتی ہیں۔ پہلے ان آمروں سے حسبِ منشاء کام لیا جاتا ہے اور پھر انہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے۔ گنتی کے جن چند ملکوں میں کسی نہ کسی شکل میں سلطانیٔ جمہور ہے تو وہ بھی جمہوری قبا میں بوئے سلطانی و مطلق العنانی کی ہی ایک شکل ہے۔ واپس پاکستان آ جاتے ہیں جو علامہ اقبالؒ کی عملی جولان گاہ تھی، جہاں انہوں نے جدید اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک انتہائی پرجوش اور ولولہ انگیز جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی مگر اس اسلامی جمہوری ریاست کے ستربہتر سالوں میں یہاں تقریباً چالیس برس تک فوجی آمریت اور باقی جمہوری مطلق العنانیت رہی۔ آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو کیا اس انتہائی تشویشناک صورتِ حال سے مایوس ہو جاتے؟ ہرگز نہیں۔ اقبالؒ نے نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ نوجوانوں کے افکار اور جذبات کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اقبال نے اپنی جوانی کے کئی مہہ وسال مغرب میں گزارے تھے۔ فرماتے ہیں ؎ افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے آج کا نوجوان مسلم پاکستان میں ہو، کسی دوسرے مسلمان ملک کا شہری ہو یا غیر مسلم جمہوری ملکوں کا باسی ہو وہ مسلمان معاشروں کے اندر مذہبی منافرت اور فرقہ بندی نیز مسلمان ملکوں کے مابین علاقائی جھگڑوں اور تنازعوں سے سخت بیزار ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ان فرقہ بندیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرانے میں مغرب کا ہاتھ ہے کیونکہ مسلمانوں کی باہمی آویزش و چپقلش میں یہی ان کا فائدہ ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمران، وہاں کے سیاست دان اور مذہبی رہنما یا تو اس کھیل کو سمجھتے ہیں یا پھر اتنے بے بس ہیں کہ کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے پر مجبور اور اپنی آزاد مرضی سے محروم ہیں۔ اقبال کا درس خودی صرف نوجوانوں کو ہی نہیں سارے مسلمانوں کو جگانے کے کام آ سکتا ہے۔ اقبالؔ نے بارہا واضح کیا کہ خودی، خود پسندی نہیں، یہ عظیم جذبہ دوسروں کو ہیچ نہیں سمجھتا بلکہ انسان پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کے دوسرے انسانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے کہ یہی احترامِ آدمیت کا بنیادی تقاضا ہے۔ اقبال اپنے فلسفۂ خودی کو انتہائی سہل الفاظ میں نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ خودی اور خدا شناسی کے ساتھ وہ کائنات کو زیر کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں ؎ یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے؟ راز درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات اقبال کا اضطراب تو ہم نے دیکھ لیا جو آج کے تناظر میں کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اب ذرا دیکھیے کہ اقبال کی آرزو کیا ہے؟ جوانوں کو مری آہِ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا! آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے