افغانستان کے متمدن اورتاریخی شہرقندھار پہنچ کر ہندوستانی مہمانوں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا وہ اپنے سفر کی منزل مقصود پر پہنچ گئے ہیں۔ سیدسلیمان ندوی رقم طراز ہیں کہ ’’ قندھار پہنچتے ہی شہر کے کچھ ممتاز اصحاب ہم سے ملنے آئے جن میں خاص طور پر وزارت خارجہ افغانستان کانمائندہ متعینہ قندھاراور طلوع افغان کے ایڈیٹر عبدالحئی خان جیسے لوگ قابل ذکر ہیں۔سیرِ قندھار کے دوران اقبال اپنے دیگر ساتھیوں سمیت سب سے پہلے اس شہر کے مقدس اور تاریخی مقامۃ ’’خرقہ شریف‘‘ کی زیارت کیلئے گئے ۔ خرقہ شریف (چوغہ نبیﷺ)کے بارے میں مشہور ہے کہ آقائے نامدارﷺ نے اپنی وصال سے قبل اس ملبوس کواپنے اصحاب حضرت عمرفاروق ؓ اور حضرت علی ابن طالب ؓ کے ہاتھوں اپنے بِن دیکھے دوست حضرت اویس قرنی ؒکو عطیہ کیا تھا۔ حضرت اویس قرنی ؒ کے انتقال کے بعد یہ چندسال تک غار حرامیں پڑارہااوربعد میں عراقی سلاطین نے اسے بغداد لایاجہاں بایزید یلدرم کے زمانے تک یہ بغداد میں رہا ۔فتحِ بغداد کے وقت امیرتیمور نے اس کو سمرقند منتقل کرکے بید نامی مقام میں اس کو محفوظ کردیا ۔کہاجاتاہے کہ 1768ء کواسی وقت کے شاہِ سمر قندوبخارامراد بیگ نے احمدشاہ ابدالی سے دوستی یا صلح معاہدے کے بعداس مبارک لباس کو اسے بطور تحفہ پیش کیا۔احمدشاہ ابدالی کے فرمان کے مطابق سب سے پہلے یہ چوغہ بلخ (مزارشریف) لایاگیااور سخی بابا مزار کے احاطے میں محفوظ کیاگیا۔پھر کابل میں علی بابا نامی مقام میں رکھا گیا اور بعد میں قندھار(اشرف البلاد) کو یہ اس مبارک ملبوس کی مہمانی کا شرف نصیب ہواجو آج تک وہیں پرقصرشاہی کے قریب ایک عمارت(المعروف خرقہ شریف) میں مرجع خلائق بناہواہے ۔1919میںانگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد شاہ افغانستان غازی امان اللہ خان نے اس نبوی ﷺ لباس کو اپنے آباواجداد کی میراث کی حیثیت دلاکر ذاتی خرچ سے ازسرنو اس عمارت کوتعمیرکیا۔خرقہ شریف کی زیارت کے علاوہ ہندی مہمانوں نے احمدشاہ ابدالی کی قبر پر بھی حاضری دی جن کی دین دوستی ،انصاف پسندی اور مجاہدانہ کارناموں کی ایک دنیا معترف رہی ہے ۔ یادرہے کہ احمدشاہ ابدالی نے نہ صرف افغانستان پر حکومت کی تھی بلکہ ہندوستان کی سرزمیں پر بھی اٹھارویں صدی کی آخری دہائی میں اپنا جھنڈا لہرایا تھا۔ شمالی ہندوستان سے مرہٹوں کاخاتمہ کرنے کیلئے اسی زمانے میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ ہی نے اس مردآہن کو افغانستان سے مدد کیلئے پکارا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کی قبر کی زیارت کے بعد یہ حضرات قندھار کے خوبصورت علاقے ارغنداب گئے اور پہاڑی پربابا ولی کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔سید راس مسعود کو اپنے ملک ہندوستان میں کافی مصروفیتوں کے پیش نظرایک دن قبل افغانستان سے رخصت ہونا تھا یوں یکم نومبر کو قندھار پہنچنے سے پہلے دن ہی وہ قندھار سے براستہ چمن کوئٹہ روانہ ہوئے۔ سید سلیمان ندوی ، اقبال اور ان کے دیگر رفقا نے رات قندھار میں گزاری اور دونومبر کی صبح نو بجے ناشتے کرکے واپس ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا۔رخصت ہوتے وقت گورنر قندھار نے مہمانوں کوقندھاری اناراور خشک میوہ جات کے ٹوکرے تحفے کے طور پرپیش کیے ۔ معززمہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے سرور خان جویااور دیگر شاہی حکام ان کے ہمراہ قلعہ جدید (افغان سرحد کی آخری چوکی) تک آئے اور انہیں الوداع کہا۔ اقبال اور سید ندوی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد سرحدی شہر علاقے چمن پہنچے جہاںکے غیور عوام نے راستے میں جگہ جگہ ان کا پرتپاک استقبال کیا۔چمن کے لوگوں کی خواہش تھی کہ ہندوستانی علما کا یہ وفد کم از کم ایک رات ان کے ہاں گزارے اور انہیں اپنی علمی نشستوں اور تقریروں سے سے فیض یاب کروائیں تاہم تنگئی وقت کے پیش نظر مہمانوں نے اپنے مداحوں کے ہاں رات گزارنے سے مفرت کی اور کوئٹہ کی طرف چل نکلے-چمن سے کوئٹہ تک دشوار گزار راستہ کاٹ کر رات کو وہ کوئٹہ میں تھے، یہیں پر ڈاک بنگلہ میںقیام کیا اور اگلے دن یعنی چار نومبر کو کوئٹہ سے ملتان روانہ ہوئے۔سید سلیمان ندوی کا سفر ملتان ہی پر اختتام پذیر ہوا جبکہ اقبال رات کو خیریت سے لاہور پہنچے۔وطن پہنچے کے بعد چھ نومبر کو اقبال نے اپنے مذکورہ دوساتھیوں کی معیت میں اپنی کامیاب افغانستان یاترا کے بارے میں ایک بیان جاری فرمایا جس میں کہا گیا تھا کہ’’ حکومت افغانستان کاارادہ ہے کہ محکمہ تعلیم کوجدید طریقوں پرازسر نو ترتیب دیا جائے اور ساتھ ساتھ افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان والی سڑکوں کی مرمت کی جائے ۔نئی یونیورسٹی بتدریج ترقی کررہی اور اس وقت افغانستان ایک متحدہ ملک ہے جہان ہرطرف نیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اور حکام کافی سوچ بچار کے بعد نئے پروگرام بنارہے ہیں، وہ افغانستان سے اس یقین کے ساتھ آئے ہیں کہ اگر موجودہ حکام کو دس سال تک اپناکام جاری رکھنے کا موقع مل جائے تو بلاشبہ افغانستان کا مستقبل روشن ہو گا‘‘۔ شومئی قسمت کہ اقبال کے اس امید افزاء بیان کی سیاہی تک خشک نہیں ہوئی تھی کہ اگلے روزسات نومبر کو یہ دل شکن خبر پہنچی کہ نادرشاہ افغان کو کابل میں قتل کردیاگیاہے۔ کہاںاقبال اورنادر شاہ کی جگری دوستی اورکہاں کابل اور لاہور کے بیچ خیرسگالی کے جذبات اورکہاں آج کی تلخیاں اور تناو کا ماحول؟ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے اب تک ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے لیکن بے شمار مشترک اقداررکھنے والے ان دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھتے جارہے ہیں۔کاش!خود کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھنے کے بجائے یہ برادر اسلامی ملک اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچان لیں اور مل کا ان کامقابلہ کریں۔کاش ! اقبال اور نادرشاہ شہید کی روح کو سکوں پہنچانے کی خاطر ہمارا حکمران طبقہ مزید ہوش کے ناخن لے کر قلب ایشیاء کو جنگ اور منافرت سے پاک کرنے میں اپناکردار اداکریں تاکہ ان دومسلمان ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کا امن اور خوشحالی بحال ہوں ۔بقول اقبال: آسیا یک پیکر آب و گِل است ملت افغان در آں پیکر دل است از فساد آں فساد آسیا۔درکشاد او کشاد آسیا، ( ختم شد)