برادرم آصف محمود نے اپنے نوکیلے اور کٹیلے لہجے میں اقبال کی چھٹی کے ساتھ ہوئی واردات پرسلگتا کالم لکھا۔ یہ بتایا کہ یہی حکومت جب اقتدار کے آسمان پر فائزنہیں ہوئی تھی تو اسے اس مردِ درویش اقبال کے بارے میںزمینی حقائق اورملی احساسات کابخوبی ادراک تھا۔ اب جبکہ اس کی نظر ِ بلند کو حکومتی رفعتیں نصیب ہو چکیں تو اسے نئے منظروں نے الجھا اور لبھا لیا ہے۔ہمارے موسموں میں یہ طلسم کاری بھی عجب ہے کہ یہاں ملی احساسات صرف اپوزیشن ہی میں رہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، جونہی کوئی گروہ یا شخصیت حکومتی ایوانوں کی جادو نگری میں داخل ہوتی ہے ، اس کا ایجنڈہ اور ترجیحات قومی سے عالمی ہو جاتی ہیں۔جہاں تک اقبال کی بات ہے تودراصل اقبال کے ساتھ چھٹی نہ کرنے کی یہ شاید آخری ہی واردات تھی، جو کی جا سکتی تھی اور جو حکومت کر گزری ۔ اس سے پہلے اس باب میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیا گیا۔ اقبال کی فکر پر جہاں جہاں ہو سکا ، چن چن کے اور تاک تاک کے کاری وار کیا گیا۔ باریک بینی سے نصاب سے اصل اقبال کو نکال دیا گیا کہ اس میں ہم سے کہیں کوئی کمی ،کوئی کسر یا کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔مسلمانوں کی تاریخ میں یہ چیز بڑے تسلسل سے آپ کو ملے گی کہ ان کی روا داری دشمن کو بے شک معاف کردے، یہ اپنے ہیروز کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ چنانچہ اقبال جتنے بڑے ہیرو اور محسن تھے ، وہ بھلا اس تاریخی تسلسل سے کیسے بچ سکتے تھے۔ یہ تو اقبال کی سخت جانی ہے کہ وہ بار بار کی اس سزائے موت کے بعد پھر کہیں نہ کہیں سے انگڑائی لے کر جی اٹھتا ہے ، ورنہ تو ہم نے کب کی اس کی لوحِ مزار بھی اڑا لی ہوتی۔ اقبال نے یورپ میں بیٹھ کر بھی اس نے ٹھیک اسی یورپ سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا تھا ، جس یورپ میں نہ بیٹھ کر بھی ہم اس کاکفر نہیں کر سکتے۔ مرعوبیت سے انکارہی نہیں کیا، اقبال نے یورپ کو خبردار بھی کیا ؎ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا اقبالؔ یورپ میں رہ کر آدابِ سحر خیزی تک نہ بھلا سکا۔جانے وہ یورپ گیا ہی کیوں تھا ،جب اسے یہی کہنا اور کرنا تھا ؎ زمستانی ہوا میں تھی گرچہ شمشیر کی تیزی نہ بھولے مجھ کو لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی یہ اک شاعرانہ ابات ہی نہ تھی، مہاراجہ سر کشن پرشاد بہادر کو 31 اکتوبر1916 ء کولکھے اپنے خط میں، اقبال نے لکھا: صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں، اس کے بعد نہیں سوتا، سوائے اس کے کہ مصلٰی پر کبھی اونگھ جاؤں۔‘‘ جو شخص سحر دم گرم بستر کے بجائے مصلے پر اونگھتا پایا جائے ، اس شخص کے لیے تو آج کے عہد میں سزا پانے کو یہ بھی کافی ہے۔ ایک الگ وطن کا اس نے خواب دیکھا ، پھر مگر امت اور ملت کی گردان شروع کر دی۔ وہ اقبال جس نے پہلے ہندی ترانہ لکھا اور اس میں یہ کہا ؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی ، یہ گلستاں ہمارا وہی اقبال پھر ترانۂ ملی لکھنے لگ پڑے ؎ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا چنانچہ پنڈت آنند نرائن نے تب اقبال کو ہندو قوم کی طرف سے سز ادینے کے لیے یہ نظم لکھی ؎ ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا، حجازی بن بیٹھا اپنی محفل کا رند پرانا آج نمازی بن بیٹھا اس طرح اقبال فرماتے ہیں: ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اقبال کو سر کا خطاب ملنے کے اعزاز میں مقبرہ ٔ جہانگیر میں پارٹی دی جا رہی تھی ،تب اقبال کے مداح سوچ میں پڑ گئے تھے کہ کہیں یورپ کے حوالے سے اقبال کے کلام کی کاٹ کند نہ ہو جائے۔ اسی دوران ایک خط میں اقبال یہ لکھ رہے تھے۔’’اللہ کی قسم! دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی، ان شااللہ۔‘‘ اقبال جب یورپ میں جب وہ ایک عیسائی لینڈ لیڈی کے ہاں مقیم ہوئے تو اس خاتون نے اقبال کو واش روم میں لوٹا لے جاتے دیکھا، پوچھنے پر اقبال نے بتایا ، ہمارا نظامِ طہارت کاغذ یا مٹی پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنی نظافت کے لیے پانی کے استعمال کی ترغیب دیتاہے ، اور تو اور اقبال نے اس خاتون کو بھی اس نظام نظافت پر عمل کی دعوت بھی دی۔وہ خاتون خوش ہوئی۔ انھوں نے قیامِ یورپ کے وقت پروفیسر آرنلڈ سے کہا، ان کا قیام وہاں ہونا چاہئے جہاںحلال ذبیحہ مل سکے۔ چنانچہ انھوں نے ایک یہودی گھرانے میں قیام کیا، کیوں کہ صرف یہودی ہی ذبیحے کا اہتمام کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی پر وہ فرانسیسی فلسفی برگساں سے ملے ، جس نے ’واقعیت زماں‘ پر بہت کام کر رکھا تھا تو اقبال نے انھیں زمانے کو بر انہ کہووالی حدیث سنا کے حیران کر دیا۔ تو صاحب! یہی بہتر ہے کہ اقبال کی فکر پر ، اس سے جڑے دنوں پر ٹھوک بجا کے پابندی لگا دی جائے۔ ورنہ لوگ جب جب اقبال کا نام سنیں گے ، اس کی فکر جانیں گے ، یہ حکومتوں کی جان کو آئیں گے۔یہ خیال رکھیں کہ اقبال نے یہ بھی کہہ رکھا ہے۔ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو