خواب ہو گا یا کوئی خواب کے جیسا ہو گا ہم نے دیکھا تھا جسے آنکھ کا دھوکہ ہو گا اتنا لکھوں گا ترے بعد ترے بارے میں آنے والوں نے تجھے پہلے ہی دیکھا ہو گا انسان کے دل میں بھی کیا کیا ارمان ہوتے ہیں۔ مجھے ارمان خواہشات سے زیادہ گھمبیر لگتے ہیں۔کتنے ارمان آنسوئوں میں بہہ گئے۔ ویسے خواہشات بھی کچھ کم جان لیوا نہیںہوتیں کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ میرے پیارے قارئین!آج میرے دل میں عجب سمائی ہے کہ سراج الحق صاحب پر بات کروں کہ انہوں نے بات ہی ایسی کی ہے کہ ہماری توجہ کھینچ لی ہے۔ وہ سیاست میں کھیل کی اصطلاح میں بات کرنے لگے ہیں کہ سیاست کی زبان حکمران نہیں سمجھتے، فرماتے ہیں کہ عمران خاں نے جھوٹ فریب اور یوٹرن کی سچری کر لی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سراج الحق صاحب یا تو امپائر کے فرائض انجام دے رہے ہیں یا پھر سکور کائونٹر کے۔ ویسے بنتا بھی ہے کہ کوئی تو ہو جو حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کی امپائرنگ کر سکے۔ خان صاحب بٹنگ پر ہیں اور پی ڈی ایم بائولنگ پر۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ جماعت اسلامی اس وقت تماشائی کا رول ادا کر رہی ہے کہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ اگرچہ انہوں نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا مگر پی ڈی ایم کے شور شرابے میں پیچھے رہ گئے اور ان کی آواز دب گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی کے پاس نیک نامی ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والے جب بھی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں تو ان پر کوئی بھی کرپشن کا ذرا سا بھی الزام نہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے اور یہی ان کی خامی۔ یہ ہے مے کدہ یہاں رندہیں یہاں پارسائی حرام ہے۔ وہ آغاز میں بلکہ الیکشن کے لئے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ رہے مگر وہ تو سب کے ساتھ ہی کچھ دیر چلتے ہیں کہ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو ،میں اصل میں دنیا کے ساتھ دین کو لے کر چلنا آسان نہیں ہوتا۔ اکثر شریف النفس لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ اب کیا کیا جائے پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی اس میں بھی کیا شک ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن اپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کئے رکھتے ہیں ۔واقعتاً بے لوث اور غیر مشروط محبت صرف رضائے الٰہی کے لئے ،مگر کیا کیا جائے اتنے زیادہ نیک لوگوں کو معاشرے میں کھپانا مشکل ہے یہاں بھی جیسا دیس ویسا بھیس ہی چل سکتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ بندہ کہاں تک سمجھ جائے۔ آخر کو انسان ہی ہے خطا کا پتلا اور ہوائو ہوس کی دنیا میں سان لینے والا۔ کبھی کبھی مجھے ایک مختصر سا قول کسی کا اچھا لگتا ہے۔ ٹھگ دی روزی پہلے اسمان تے۔ایسے لوگ تو نیت کرتے ہی جیسے ثمر بار ہو جاتے ہیں اصل میں یہ چھوٹ ہے جو ان کو ملتی جاتی ہے ۔ کریں تو کیا کریں موجودہ جمہوری لڑائی جو جمہوروں کے درمیان میں ہو رہی ہے جماعت اسلامی یکسر نظر انداز ہو گئی ہے کہاں قاضی حسین احمد کا زمانہ کہ ایک ہی نعرہ تھا قاضی آ رہا ہے۔ عوامی سطح پر بھی اس نعرے کی وہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ مضافاتی ریڑھیاں اور ٹھیلے لگتے تو پولیس آنے پر کوئی آواز لگاتا کہ قاضی آ رہا ہے تو وہ ریڑھیاں اور ٹھیلے لے کر بھاگ اٹھتے۔اس کے بعد سید منور حسن شاہ صاحب کا دو ٹوک انداز بھی نہ چل سکا خود جماعت اسلامی گھبرا گئی تھی کہ اتنے کھرے سچ کی تو یہاں بھی اجازت نہیں۔ بات کچھ گہری ہے کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر بھی کوئی اسلامی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ مصر کا مرسی کس کو بھولے گا۔ مصلحتوں سے ورا ہونا آسان نہیں۔ جماعت اسلامی موجودہ صورتحال میں کہاں کھڑی ہے یہ اسے بھی معلوم نہیں۔ سراج الحق صاحب پی ڈی ایم پر تو خان صاحب سے زیادہ برس رہے ہیں کہ یہ بھی چوروں کا ٹولہ ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی پر یقین رکھتا ہے انہوں نے دو ہفتے کے لئے جلسے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے مگر ان کے اعلان کا نوٹس کون لے گا!حکومت کو اپوزیشن کی پڑی ہوئی ہے۔ ملتان کے جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے انہوں نے شہر ہی تقریباً سیل کر دیا ہے۔ اپوزیشن بھی بپھر گئی ہے کہ ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دینے کا فیصلہ انہوں نے کر لیا ہے۔ ان کے درمیان صلح کرانے والا ان دونوں سے بڑے اور مضبوط ڈنڈے والا ہی آئے تو آئے۔ وارث شاہ یاد آئے ڈنڈا پیراے وگڑیاں تگڑیاں دا۔لیکن یہاں تو بگڑے ہوئوں نے ڈنڈے اٹھا لئے ہیں۔ اس کو بھی بچانا ہے خود کو بھی بچانا ہے اک سمت ہے ذات اس کی اک سمت زمانہ ہے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پی دی ایم صرف اقتدار کے لئے برسر پیکار ہے۔ پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہ پی ڈی ایم والے لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچ گئے تو حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ہو سکتا ہے کہ دونوں کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے۔ لانگ مارچ سے سب ہی گھبراتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ملتان میں حکومت کا رویہ بہت ظالمانہ ہے۔ بلاول نے کہا کہ کوفہ کی سیاست سے مدینہ کی ریاست نہیں چل سکتی۔عوام کا ردعمل بہت زیادہ ہے اور حکومت بوکھلائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی تیسری طاقت بن کر آئی اور لوگوں کی توقعات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔اب یوں ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی ایک طرف اور باقی جماعتوں کی قیادت پی ڈی ایم ایک طرف۔یعنی دو طاقتیں نظر آ رہی ہیں۔ اب کیا جماعت اسلامی تیسری طاقت بن سکتی ہے کیا عوام ان کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں یا کہ وہی بات: پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے جو بھی ہے حکومت پی ڈی ایم کا کام آسان کر رہی ہے وہی جو پروین شاکر نے کہا تھا‘ میں نے ذرا سی بات کی اس نے کمال کر دیا۔ تحریک کی انگیخت سچ مچ خان صاحب نے لگائی ہے۔ چلیے ایک شعر کیساتھ اجازت: کون کہتا ہے حسن کچھ بھی نہیں اس نے تو آگ لگا دی ہے