جنرل (ر)اسلم بیگ نے اپنی کتاب’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ میں کئی انکشافات کیے ہیں۔ چند حقائق ایسے ہیں جن سے ہم سب واقف ہیں جزل بیگ اگر بعض نکات پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالتے تو کسی مورخ یا محقق کے سامنے پاکستان کی تاریخ کا منظر نامہ زیادہ واضح ہوتا ہم یہاں ان نکات پر کچھ حاصل معلومات پیش کررہے ہیں۔ مثلاً انہوں نے لکھا1970کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت شیخ مجیب الرحمن کو ملنی چاہئیے تھی۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو حزب اختلاف میں بیٹھنے پر آمادہ نہیں تھے۔ یحییٰ خان نے مجیب کو ان کا یہ حق نہ دے کر ملک توڑ دیا۔ لیکن یہاں اس بات کی تشنگی رہ گئی کہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انتخابات سے قبل اس کے متوقع نتائج کے متعلق مختلف انٹیلی جینس ایجنسیوں، حکومتی ذرائع اور مختلف عوامی جائزوں کی کیا رائے اور رپورٹ تھی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اس موقف کی طرف تو اشارہ کیا ہے۔ جو انہوں نے مختلف عوامی جلسوں میں مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسرے کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دی تھیں جس سے یہ بات تو سو فیصد درست لگتی ہے کہ بھٹو کسی بھی قیمت پر حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جنرل بیگ اگر یہ بھی بتاتے کہ کیا انتخابات کے نتائج کے بعد بھٹو اور صدر یحییٰ کی ملاقاتوں خصوصاً المرتضیٰ لاڑکانہ میں صدر کی میزبانی کرتے ہوئے ان دونوں رہنماؤں نے مستقبل کی کوئی واضح حکمت عملی پر اتفاق کیا تھااور یہ بھی کہ اس وقت فوجی قیادت بشمول جنرل عبدالحمید اور جنرل پیر زادہ جیسے قریبی ساتھیوں کی اس صورت حال پر کیا رائے تھی۔مشرقی پاکستان کی لوگوں کی محرومیوں کا تذکرہ بھی جنرل بیگ نے کیا ہے لیکن پاکستان کے مشرقی حصے کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی منظوری سویلین اور فوجی بیوروکریسی میں بنگالیوں کی نمائندگی، سیلابوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے کثیر الجہتی پروگرام کے حوالے سے مختصراً روشنی ڈالدیتے تو یہ تشنگی نہ رہتی۔ ہاں محرومیوں کے بہت سے عوامل تھے اس حوالے سے جنرل اعظم خان نے آج سے تین دہائیاں قبل مجھے ایک تفصیلی انٹرویومیں بتایا تھا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بنگالیوں نے 1947سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے حوالے سے اکثریت رائے سے اپنا مینڈیٹ دیا تھا تو پھر بتدریج وہ مغربی حصے سے نالاں کیوں ہوئے۔ ان کے گلے شکوؤں کی حقیقت کیا تھی۔ جنرل اعظم نے جنرل بیگ کے اس استدلال کی بھر پور تائید کی تھی کہ مشرقی پاکستان میں ایوب خان کی محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فتح نے بنگالیوں کو مایوس کیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کی ان کی خواہش اور مینڈیٹ کو طاقت اور دھاندلی کے ذریعے تبدیل کیا گیا تھا۔ 1965کے ان انتخابات میں جو بی ڈی نظام کے تحت لڑے گئے تھے۔ جنرل اعظم اس مہم میں محترمہ فاطمہ جناح کے قریب ترین ساتھی تھے اور یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ سات سال قبل 27اکتوبر 1958کی شب ایوب خان کو برسر اقتدار لانے کی کوشش میں جنرل اعظم شریک تھے جنہوں نے صدر اسکندر مرزا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا وہ اس وقت بھی مادر ملت کے بہت بڑے مداح تھے۔ انہوں نے استعفیٰ کی دستاویز پر اسکندر مرزا کے دستخط لینے کے بعد اسے جنرل برکی کے حوالے کیا کہ وہ اسے جنرل ایوب کو پہنچا دیں اور خود محترمہ فاطمہ جناح کے پاس جا کر انہیں مطلع کیا کہ اسکندر مرزا کی چھٹی ہو گئی ہے اور عنان اقتدار ایوب خان نے سنبھال لیا ہے۔ فاطمہ جناح نے ان سے کہا کہ ایوب خان کی نظریں بہت عرصے سے اقتدار پر تھیں۔ جنرل اعظم بتانے لگے کہ انہوں نے یہ کہہ کر مادر ملت کو مطمئن کر دیا کہ یہ جنرل ایوب کا حق تھا۔ کیونکہ وہ ہم سب سے سینئیر ہیں۔ جنرل اعظم نے بتایا کہ انتخابات منصفانہ ہوتے تو فاطمہ جناح 1965کے الیکشن بآسانی جیت جاتیں، جنرل اعظم خود مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھے۔ مشرقی پاکستان میں اپنی تعیناتی کے دور میں ان کی کارکردگی اتنی شاندار اور عام لوگوں کے ساتھ ان کا رشتہ اتنا مضبوط رہا کہ لوگ ان سے والہا نہ محبت کرنے لگے تھے۔ لیکن ان کے خیال میں ایوب خان ان زمینی حقائق اور مشرقی پاکستان کے مسائل کا صحیح طور پر ادراک نہ کر سکے۔ جنرل اعظم نے بتایا تھا کہ دارالحکومت اسلام آباد لے جانا بہت بڑی غلطی نہیں تھی اس کے کچھ سکیورٹی وجوہات بھی تھی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کراچی کو فیڈرل کیپٹل کا حصہ قرار دینا چاہئیے تھا تاکہ اس شہر کو ایک خاص اہمیت حاصل ر ہے۔اقتدار کی مجبوریاں میں جنرل بیگ نے مشرقی پاکستان کے انتظامی امور میں کمزوریوں اور عدم توجہی کا ذکر ضرور کیا ہے انہوں نے کو میلا میں فوجی افسران کے رویوں اور مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے انتہائی کمزور حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے لیکن اگر وہ بتاتے کہ پاکستان پر جان چھڑکنے والے حسین شہید سہروردی جیسے محب وطن لیڈر کے معتمد خصوصی ہونے کے باوجود شیخ مجیب بھاریتوں کے ساتھ مل کر اگر تلہ سازش کا حصہ کیوں بنے اور یہ کہ اگر تلہ سازش کیس کی حقیقت کیا تھی تو ماضی کے غلطیوں کا کھوج لگانے والے مورخ کو اس حقیقت کو جاننے میں آسانی ہوتی۔ کیونکہ اس دور میں شیخ مجیب اپنی دھواں دار تقریروں میں یہ بات بار بار دہرا رہے تھے کہ انہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔ پٹ سن اس وقت مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی فصل تھی جسے ایکسپورٹ کر کے پاکستان ایک کثیر سرمایہ کماتا تھا۔اگر تلہ سازش کی حقیقت کیا تھی؟ یہ سوال ایک بار میں نے کراچی میں مشتاق مرزا کے گھر پر جناب نصراللہ خان کے سامنے رکھا۔ تو پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز اور بدلتی سمت کو اس دور میں سب سے بہتر پہچاننے والے سیاسی رہنمانے بتایا کہ انہوں نے یہ بات اس وقت ایوب خان سے پوچھی تھی جب 1968میں گول میز کانفرنس کے انعقاد سے پہلے فیلڈ مارشل اپنے خلاف ایک بہت بڑی عوامی تحریک کا سامنا کر رہے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ شیخ مجیب کانفرنس میں شرکت کے بغیر یہ کانفرنس با مقصد نہیں ہو سکتی کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے ہی اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر رہے تھے۔ اس پر فیلڈ مارشل نے بتایا کہ مجیب الرحمن اگرتلہ کیس میں زیر حراست ہیں اور اس میں مکتی با ہنی کی تشکیل کے اور بھارت کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف سازش کرنے کے نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ میں نے صدر ایوب سے کہا پھر بھی ہمیں ان کا نقطہ نظر سننا چاہئیے اور دیکھنا چاہئیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ مشرقی پاکستان کے ایک مقبول لیڈر ہیں ان کی شرکت سے ہم گول میزکانفرنس کی اہمیت اور افادیت کوبامقصد بنا سکتے ہیں، اس پر ایوب خان راضی ہو گئے اور شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کر کے کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ نوابزادہ نے کہا کہ میں نے اس دوران شیخ مجیب الرحمن سے علیحدگی میں بھی ملاقات کی میں نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ جس پر شیخ مجیب نے کہا کہ ہم آزادی کی نہیں اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ بات ہم نے نہیں،حکمرانوںنے پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچائی ہے۔ ہمیں بلاوجہ قیدکیا گیا۔ مجھے بلایا گیا میں آگیامیں نے کھل کر اپنی بات کہی ہے۔ یہ مشرقی پاکستان کی محرومیوں کی کہانی ہے۔ (جاری ہے)