حکومت کے دو سال مکمل ہوئے اور جناب وزیر اعظم کے ایک انٹرویو کے مندرجات کو پرچم بنا لیا گیا ہے۔ شدت جذبات سے گلو گیر لہجے منادی کر رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کی گفتگو میں اتنا سوز اور اتنا درد تھا کہ انہیں پھر سے یقین ہو چلا ہے ،چشمہ یہیں سے نکلے گا۔ خوش فہمی بری چیز نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کے فیصلے لذت گفتار سے نہیں کردار سے ہوتے ہیں۔ تقاریر اور انٹرویوز میں تو پہلے دن سے جھیلوں پر شام کے وقت بولنے والی کوئلوں جیسا سوز تھا ، سوال اب یہ نہیں کہ اس سوز میں کتنا نکھار آیا ہے۔سوال یہ ہے کہ دو سالہ اقتدار کی کارکردگی کیا ہے؟ کوئل سا لہجہ ، بلبل سی گفتار اور میر کی غزل سا سوز حزب اختلاف کی اداس شاموں کو توحسین بنا سکتا ہے ۔اقتدار کی پت جھڑ کو قوس قزح نہیں بنا سکتا۔تقاریر ، انٹرویوز اور ارشادات نہیں ، یہ نامہ اعمال ہوتا ہے جو اہل اقتدار کو سرخرو کرتا ہے۔دفتر میں کوئی عمل ہے تو پیش کیجیے۔اقتدار کے دو سال بعد بھی اگر لذت گفتار ہی سے معرکے سر کرنے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔آپ پاندان اٹھائیں یا نہ اٹھائیں خلق خدا چیخ رہی ہے کہ ہم باز آئے محبت سے۔ تقریر کی لذت سے تو انکار نہیں، نیا پاکستان اسی فن کا اعجاز ہے۔دیوار دل سے اب جو سوال آن لگا ہے وہ کارکردگی سے متعلق ہے۔کارکردگی میں بھی مثالیت پسندی کا کوئی مطالبہ شامل نہیں۔ کسی نے یہ نہیں چاہا تھا کہ عمران خان الہ دین کا چراغ لے آئیں ،اسے رگڑیں اور جن کو حکم دیں کہ فوری طور پر سب کچھ ٹھیک کر دے۔ بس اتنی سی خواہش کی گئی تھی کہ عمران معاملات کو درست سمت میںڈالیں۔تبدیلی بھلے نہ آئے لیکن تبدیلی کی سمت میں چند قدم اٹھا لیے جائیں۔ دو سالہ اقتدار میں تبدیلی کے یہ ابتدائی نقوش بھی نظرنہیںآرہے۔ بس اہل دربار ہیں، قصائد ہیں اور رجز ہیں۔بنانے والے تو سکندر بخت جیسے کرکٹر کو ’’کرکٹ کا سکندر‘‘ بنا دیتے ہیں۔لیکن پروپیگنڈے کی دھول سے نہ کوئی سکندر اعظم بنتا ہے نہ کرکٹ کا سکندر۔ دربار اور دربار سے جڑا کارپوریٹ پروپیگنڈا دفتر عمل کا متبادل نہیں بن سکتا۔ کون سا شعبہ ہے جہاں ان دو سالوں میں حکومت نے قابل قدر کارکردگی دکھائی ہو؟ معیشت کا جو حال ہے ہمارے سامنے ہے۔ بائیس سالہ جدوجہد کے نتیجے میں جو معاشی مسیحا اس قوم کو عطا فرمایا گیا اس کے کمالات پہلے ہی سال میں سامنے آ گئے۔ اصلاح احوال تو کیا ہوتی روایت یہ ہے کہ صاحب کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ہو کیا رہا ہے چنانچہ اب آصف زرداری کے وزیر خزانہ سے کام چلانا پڑا۔ قافلہ انقلاب کے بائیس جدو جہد کو سلام پیش کیجیے کہ اس کے پاس اپنا کوئی متبادل تک موجود نہ تھا جو معیشت کو دیکھ پاتا۔احتساب اور انصاف کا نعرہ تھا لیکن یہ دونوں چیزیں آج بھی اتنی ہی معتبر ہیں جتنی پہلے ہوتی تھیں۔تعزیر کے کوڑے کے جملہ حقوق آج اپوزیشن کی کمر پر برسنے کے لیے محفوظ ہیں۔پارٹی فنڈنگ کیس میں کی گئی غلط بیانیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور بی آر ٹی کے معاملات پر ’’ مٹی پائو‘‘ فارمولے کا اطلاق بھی راز کی بات نہیں۔شفافیت کا ہاتھ بھی تنگ ہے اور اقربا پروری کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ہرغلطی پر رجز پڑھنے والے نونہالان انقلاب کو شاید خبر ہی نہ ہو پی آئی اے کے معاملات کو جس طرح الجھایا گیا اس کا آزار اتنا شدید تھا کہ خود جناب وزیر اعظم کو اس غلطی کا اعتراف کرنا پڑا۔لیکن کل جب ہم طالب علم تنقید کر رہے تھے قافلہ انقلاب مان کر نہیں دے رہا تھا۔ خارجہ پالیسی کے بارے دعویٰ فرمایا گیا کہ یہ ہمارا سب سے کامیاب شعبہ ہے اور اس میں تو ہم نے فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ او آئی سی سے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس تک ہم نہیں بلوا سکے۔ ہماری فکری نا پختگی کا یہ عالم ہے کہ پہلے کوالا لمپور کانفرنس میں شرکت کا وعدہ کر لیا پھر یوٹرن لے لیا۔ سال بھر پہلے ہم ایران اور سعودیہ میں ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہ رہے تھے آج یہ عالم ہے خود سعودیہ سے تعلقات میں ایک عجب سا تنائو آ چکا ہے ۔چلیے کوئی کام تو ایسا ہوا کہ قافلہ انقلاب رجز پڑھے تو بے جا نہ ہو کہ پہلی بار صاحب پہلی بار۔واہ صاحب واہ۔ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی سمت۔ بس رجز پڑھے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر وزیر اعلیٰ سے الجھ رہے ہیں ، وزیر اطلاعات وفاقی وزیر پر تبرا فرما رہے ہیں ، اقتدار کا دو سالہ جشن مسرت ایک تھپڑ کی گونج سے سہما پڑا اور جشن مسرت کے موقع پر حکومت کے عمائدین تردیدیں جاری فرما رہے ہیں۔احتساب کے رجز پڑھ پڑھ کر سرمایہ دار کو پہلے خوفزدہ کیا گیا ۔ مشاعرہ مکمل ہوا تو معلوم ہوا خوف سے سرمایہ بھاگ گیا ہے ۔اب یو ٹرن لے کر التجائیں کی جا رہی ہیں کہ تعمیرات میں پیسہ لگائیے آپ سے ذریعہ آمدن نہیں ہوچھیں گے۔ یہ غزل البتہ ابھی بھی جاری ہے کہ خبردار ہم نے این آر او کسی کو نہیں دینا۔ صاحبان ذوق سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ جناب اسد عمر فرما رہے ہیں گیند اب عمران کے بلے پر آ رہی ہے اب چوکے چھکے لگیں گے۔طرز گفتگو کا بچپنا ختم ہی نہیں ہو رہا۔ امور ریاست کرکٹ کا میچ نہیں ہوتے۔ سال پہلے کہا جاتا تھا ایک بال سے دونوں اطراف کی وکٹیں اڑا دیں گے۔ افتاد طبع کرکٹ کمنٹری پر مائل ہے ، اتفاقات زمانہ نے مگرکار حکومت سونپ رکھے ہیں۔ اقتدار کے دو سالوں میں ساری انفرادیت ختم ہو گئی ہے۔ ہر جماعت سے لوگ توڑ کر قافلہ انقلاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ غیر منتخب لوگوں سے کابینہ بھری پڑی ہے۔حالات کا جبر دیکھیے ہر دو قدم پر ایک یو ٹرن آ جاتا ہے اور اپنے ہی اقوال زریں روند کر قافلہ انقلاب یو ٹرن لے لیتا ہے۔کوئی بھرم باقی نہیں رہا۔ دعا ہے اللہ آپ کو کامیاب کرے لیکن خود فریبی سے نکلیے۔یہ رجز پڑھنے کا موقع نہیں ، یہ فکر کرنے کا مقام ہے۔یاد رکھیے خود احتسابی سے اچھی حکمت عملی کوئی نہیں۔ خود احتسابی ہی سب سے بڑی خیر خواہی یے. دو سال کے بعد بھی اگر افتاد طبع خود احتسابی پر مائل نہ ہو اور سمجھتی ہو سوشل میڈیا پر اودھم مچا کر سرخرو ہوا جا سکتا ہے تو شاید ایسا ممکن نہ ہو. ایک وقت میں سب لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے چند لوگوں کو سحر میں جکڑا جا سکتا ہے لیکن سب لوگوں کو ہر وقت سراب کی گرفت میں نہیں رکھا جا سکتا۔ دو سالوں میں کیا ہی کیا ہے کہ نونہالان اور درباری رجز پر رجز پڑھے جا رہے ہیں. دلاوری تو یہ تھی کہ قوم سے معذرت کی جاتی. بتایا جاتا کہ ہر فرلانگ کی مسافت کے بعد ایک عدد یوٹرن کیوں آ جاتا ہے، اسے اعتماد میں لیا جاتا کہ وعدے پورے کیوں نہیں ہو سکے اور اسے بتایا جاتا کہ قافلہ انقلاب بھان متی کا کنبہ بن کر بھی ڈیلیور کیوں نہیں کر رہا۔ خود احتسابی اور معذرت کے اس زاد راہ کے ساتھ آگے کمر باندھی جاتی تو شاید کچھ بن جاتی۔ لیکن یہاں تو رجز پڑھے جا رہے ہیں اور انٹرویو کے سوز سے صبح صداقت طلوع فرمائی جا رہی ہے۔