کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے برآمدات کے فروغ کے لئے سوتی دھاگے پر 30جون 2021ء تک 5فیصد درآمدی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ دوسری جانب نیپرا نے صنعتی صارفین کے لئے بجلی کے نرخوں میں چار روپے 96پیسے فی یونٹ کمی کر دی ہے۔ جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت 12.96روپے سے کم ہو کر 8روپے فی یونٹ ہو گئی ہے یہ رعائتی پیکیج 8ماہ کے لئے ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے صنعتوں کے فروغ کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔جس کے بعد ہماری ٹیکسٹائل کی مر دہ صنعت ںمیں جان آ گئی ہے۔ ایک عرصے سے شام سات بجے سے گیارہ بجے تک پیک آورز میں بجلی کی قیمت 25فیصد بڑھ جاتی تھی۔جس کے باعث تاجر اس دوران اپنے صنعتی یونٹ‘ مل اور فیکٹری کو بند کر دیتے تھے کیونکہ ایک طرف انہیں مہنگی بجلی استعمال کرنی پڑتی تھی تو دوسری جانب سوتی دھاگے کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بھی ادا کرنا پڑتی تھی۔ جس کے بعد لازمی طور پر کپڑے کی تیاری پر زیادہ اخراجات آتے تھے جبکہ مارکیٹ میں اسی تناسب سے اس کے دام نہیں ملتے تھے۔ جس کے بعد چھوٹے صنعتکاروں نے مجبور ہو کر اپنے کاروبار کو بند کر دیا تھا،حکومت نے ایک طرف سوتی دھاگے پر ڈیوٹی ختم کی ہے تو ساتھی ہی بجلی کی قیمت بھی چار روپے 96پیسے کم کر دی ہے ،جس کا فوری طور پر صنعت کاروں کو فائدہ ہو گا،اس دوران وہ اپنے آرڈرز کو پورا کر سکیں گے،وزیر اعظم عمران خاں کے اعلان کے بعد چودہ برس سے بند صنعتی یونٹ اب مکمل استعداد سے چل رہے ہیں‘ جس کی بدولت پاکستان کی ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نوکریوں کی دن بدن مانگ بڑھ رہی ہے۔ پچاس ہزار نوکریاں دینے کے باوجود اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک لاکھ سے زائد مزدوروں کی ضرورت ہے ،جب دن رات ٹیکسٹائل کا پہیہ چلے گا تو یقینی طور پر برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ اس وقت ہم 13ارب روپے کی ٹیکسٹائل برآمد کر رہے ہیں لیکن اگر اسی رفتار سے ہماری ٹیکسٹائل چلتی رہیں تو ہماری برآمدات 20سے پچیس ارب کے درمیان پہنچ جائیں گی۔یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنے آرڈرز کو بروقت پورا کر رہی ہے ۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے برآمدات کے فروغ کے لئے سوتی دھاگے پر درآمدی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جس کے دو رس اثرات نظر آئیں گے۔بنگلہ دیش نے اپنے ایکسپورٹرز کو اسی طرح کی رعائتیں دے کر اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہے ۔بنگلہ دیش کے پاس کپاس تھی نہ دھاگہ اور نہ ہی کپڑا بنانے کی صنعت۔1981ء میں اس کی گارمنٹس کی برآمدات صرف تین ملین ڈالر تھی،پھر اس کے صنعت کاروں نے کپڑا درآمد کر کے لباس تیار کئے۔ افرادی قوت کو جدید خطوط پر تربیت دی۔ خواتین کو گارمنٹس کی صنعت میں لے کر آئے۔ بنگلہ دیش میں جب سلے ہوئے کپڑے کی صنعت پیروں پر کھڑی ہوئی تو دوسرے مرحلے میں ہی کپڑا بنانے کی جدید فیکٹریاں لگائی گئیں‘ ان فیکٹریوں کے لئے ہر قسم کا دھاگہ درآمد کیا جانے لگا۔ جب کپڑا بنانے کی صنعت نے ترقی کی تو بنگلہ دیش نے دھاگہ بننے کی فیکٹریوں کا بھی انتظام کر لیا۔ ان فیکٹریوں کی ضرورت کے لئے مختلف ممالک سے کپاس اور مصنوعی ریشہ درآمد کیا گیا،یوں بنگلہ دیش نے اس صنعت میں ترقی کی ۔ جن دنوں بنگلہ دیش ترقی کی منازل طے کر رہا تھا، ان دنوں ہمارے ہاں کرسی کی کھینچا تانی جاری تھی، کبھی میاں نواز شریف لوگوں کا ہجوم لے کر سڑکوں پر آتے تو کبھی پیپلز پارٹی میدان میں ہوتی، یوں ہماری صنعت کو بریکیں لگیں۔ وزیر اعظم عمران خان اب صنعتوں کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں،انہیں پائوں پر کھڑا کیا جا رہا ہے،دوسری جانب اپوزیشن اتحاد ان کی اس کاوش کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس وقت ملکی مفاد اور ترقی کی خاطر کام کرنا چاہیے لیکن وہ ایک بار پھر ماضی کی غلطیاں دہرا کر ترقی کے سامنے پل باندھ رہے ہیں۔ جو ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ حکومت جب محنت کر کے صنعتوں کو بحالی کرتی یا پھر صنعتوں کی ترقی میں حائل رکاوٹیں دور کر کے انہیں ریلیف فراہم کیا جا رہا ہوتا ہے تو اپوزیشن اس ترقی کو روکنے کے لئے میدان میں اتر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں ملکی ترقی میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتیں۔ سیاستدانوں کو مل کر ملکی ترقی کے لئے ایک ایسا میثاق کرنا چاہیے جس میں یہ طے ہو کہ ملکی ترقی کا جو جو منصوبہ شروع ہوا ہے، آنے والی حکومتیں اس کے فنڈزروکیں گی نہ ہی ان منصوبوں کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تاکہ ترقیاتی منصوبے نہ امنے وقت کے مطابق مکمل ہوں ۔ تحریک انصاف حکومت میں ہے، اس لئے اسے بڑے دل کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لئے کام کرنا ہو گا ۔ اپوزیشن جماعیتں اگر مکمل ملکی مفاد میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو پھر ہم بھی بنگلہ دیش ‘ملائشیا‘ اور چین کی طرح ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ اس لئے اپوزیشن جماعتوں کو ذاتی عناد کو ملکی مفاد پر قربان کر کے ملکی ترقی کے لئے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم بحرانوں سے نکل کر خوشحالی کی جانب سفر کر سکیں۔