بار بار کے تبصروں کی زد میں آنے کی وجہ سے بعض اوقات دل انتخاب سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ کیا ایک طرح کی باتیں‘ ایک طرح کے سوال ‘ بدل بدل کر وہی تبصرے‘ ہر روز بدلتی کیفیت میں ایک طرح کے دھڑکے ‘ ہم ذرا سنجیدہ کیوں نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ دنوں یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ پارٹیاں اپنے انتخابی منشور جاری کریں گی تو سوچنے والوں کو کافی ’’فوڈ فار تھاٹ‘‘ ملے گا۔ ابھی تک صرف ایک پارٹی کی طرف سے گھر کے پتے پر مجھے اس کا مطبوعہ منشور ملا ہے۔ ابھی کل ہی تو پیپلز پارٹی نے اپنا منشور جاری کیا تھا اور اس وقت وہ میرے سامنے میری میز پر ہے۔ عمران خان نے البتہ جلسوں میں کچھ اعلان کیے ہیں۔ اپنے 11نکات گنوائے ہیں۔ کراچی والوں کو دلاسے دیے ہیں۔ ان کی طرف سے کسی باضابطہ منشور کا انتظار ہے۔ یہ بھی نہیں لگتا کہ یہ منشور مجھے گھر کے پتے پر ملے‘ یہ توقع مجھے مسلم لیگ سے بھی نہیں ہے۔ شاید یہ منشور کسی ایسے دفتری پتے پر ارسال کر دیے جائیں جہاں کبھی میں کام کرتا ہوں گا۔ یہ بات میں پیپلز پارٹی کو داد دینے کے لیے کر رہا ہوں کہ وہ کتنی منظم ہے۔ البتہ اس وقت میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا عمران خان کی ایک پریس کانفرنس یا تقریر سن رہا ہوں جو انہوں نے شاہد آباد کے اجلاس میں کی ہے۔ آباد دراصل وہاں کے پراپرٹی ڈیلر اور بلڈرز کی ایسوسی ایشن ہے۔ ایک زمانے میں تو بہت ہی فعال ہوا کرتی تھی۔ یہاں انہوں نے اپنے 11نکات میں شامل ایک نکتے کی وضاحت کی یا شاید اس پروگرام کی کہ ان کی پارٹی 100دنوں میں کیا کرے گی۔ ایک نکتہ یہ تھا کہ وہ پانچ سال میں پچاس لاکھ گھر بنائیں گے اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کریں گے۔ اس کا مذاق اڑ رہا تھا۔ میری دلچسپی البتہ یہ تھی کہ اس کی کوئی وضاحت آئے تو اس پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ ملک کے معاشی مستقبل سے یقینا ہر پاکستانی کی طرح میری بھی دلچسپی ہے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہر پارٹی برسر اقتدار آ کر ملک کے اقتصادی مستقبل کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔ یہاں میں جو گزارشات کرنا چاہتا ہوں اسے ہرگزہرگز سیاسی پس منظر میں نہ لیا جائے۔ میرا مقصد سیاسی پارٹیوں کے ذہن کو سمجھنا ہے اور یہ جاننا ہے کہ ان کی معاشی منصوبہ بندی کیا ہو گی۔ جب عمران خاں نے اسد عمر کا نام مستقبل کے وزیر خزانہ کے طور پر پیش کیا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کی سوچ کیا ہے اسد عمر اور محمد زبیر دونوں کے بارے میں میرے دل میں ایک نرم گوشہ ہے۔ وہ ان کے والد جنرل غلام عمر کی وجہ سے ہے جنہیں میں اپنا بزرگ دوست کہہ سکتا ہوں اور جن سے پہلے قومی معاملات پر گفتگو رہتی تھی۔ اپنے اس نرم گوشے کی وجہ سے مجھے خوشی تو ہوتی تھی۔ مگر تشویش کہ آیا وہ اس عظیم ذمہ داری کو ادا کر سکیں گے۔ جو شخص ملک کے اقتصادی مستقبل کے لیے معیشت کے کسی اے کیو خان کی تلاش میں ہو‘ وہ بہت اونچا سوچتا ہے ایسے میں میرے لیے اسد عمر کا جائزہ لینا ایک قومی ضرورت بن جاتا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں نے شوکت عزیز سے ایک نجی محفل میں بہت سے دوستوں کی موجودگی میں کہا تھا کہ ہمارے ملک کا مقدر یہ بن گیا ہے کہ یہاں ہمارے اقتصادی معاملات کی ذمہ داری کسی چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا فنڈ منیجر (بنکار) کو سونپ دی جاتی ہے وہ اپنے اپنے شعبوں کے بڑے لوگ ہوں گے۔ مگر ماہرین اقتصادیات نہیں ہیں۔ ان کی پیشہ ور مہارت کس طرح معاملات کو چلاتی ہے۔ اس کا بار بار ذکر کر چکا ہوں۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ گزشتہ کئی برس سے سوائے محبوب الحق کے ہمارے ہاں کوئی ماہر اقتصادیات وزارت خزانہ کے منصب پر فائز نہیں ہوا۔ ان کا وژن مختلف ہوتا ہے۔ یہ تو میں جانتا ہوں کہ اسد عمر ایک بہت بڑی کجی کی ٹاپ پوزیشن پر رہے ہیں اور وہاں سے ریٹائر ہو کر سیاست میں آئے ہیں۔ تاہم ان کی بنیادی تعلیمی قابلیت یہ لکھی دیکھی کہ وہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے فارغ التحصیل ہیں۔ ایم بی اے ہوں گے یا کچھ اور۔ وہ گویا بنیادی طور پر مینجمنٹ کے آدمی ہیں۔ اس پروفائل کے مطابق وہ معاشیات یا کامرس سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ جب یہ اور جہانگیر ترین اکٹھے یا شاید آگے پیچھے تحریک انصاف میں آئے تو میں نے انہیں کارپوریٹ سیکٹر کا نمائندہ ہی سمجھا۔ یہ کوئی بری بات نہیں یہ خاصے روشن خیال لوگ ہوتے ہیں‘ دنیا کو تنگ نظری سے نہیں دیکھتے میں تو ذرا ہلکے پھلکے انداز میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر جہانگیر ترین کی علیم خاں سے جوڑی بنائیں تو اے ٹی ایم بنتا ہے اور اسی جہانگیر ترین کو اسد عمر کے ساتھ جوڑیں تو کارپوریٹ سیکٹر کا تاثر ابھرتا ہے۔ بہرحال میں نے دیکھا ہے کہ معاشی معاملات پر اب اسد عمر خاص طور پرتحریک انصاف کی پالیسیاں بیان کرتے ہیں اور میں انہیں پاکستان کے مجوزہ مستقبل کے وزیر خزانہ کی پالیسیوں کے طور پر دیکھتا ہوں۔ محظوظ بھی ہوتا ہوں اور بعض اوقات تشویش میں بھی مبتلا ہو جاتا ہوں۔ تاہم میرا خیال یہی ہے کہ پرانے سی ایس پی افسروں (اب ان کا جو بھی نام ہو)یہ ایم بی اے قسم کے لوگ بھی ہر سانچے میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ یاد آیا کہ تحریک انصاف کے قیام کے ابتدائی دن تھے جب میں نے عمران خان سے ایک بات عرض کی تھی۔ ڈاکٹر عارف علوی کے گھر پر یا شاید نجیب ہارون کی رہائش گاہ پر۔ میں نے کہا تھا کہ ہر پارٹی اپنے قیام کے وقت سیاسی عہدے تو چاہے کسی کو بھی بانٹیں۔ مگر ایک بنیادی عہدہ وہ ایک پرانے بیورو کریٹ کو دیتی ہیں جو بیٹھ کر سارا ڈیسک ورک کرتا ہے وہ سیکرٹریٹ کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں یہ کام جے اے رحیم کے سپرد تھا اور اصغر خان کی تحریک استقلال میں یہ ذمہ داری ملک وزیر علی کی تھی (اب تو کسی کو یہ نام بھی یاد نہ ہو گا) شاید مسلم لیگ نے کسی حد تک(جی ہاں‘ کسی حد تک) یہ کام سرتاج عزیز سے لیا۔ اس طرح عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف میں امریکہ اور یورپ سے آئے ہوئے بہت سے ایم بی اے قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ان کا تصور یقینا پرانے بیورو کریٹ سے مختلف ہو گا۔ مگر یہ زیادہ جدید ذہن رکھتے ہوںگے۔ان لوگوں کی ٹیم کسی مرکزیت کے تحت بنیادی کام پر لگا دی جائے تو پارٹی کے لیے بہت اچھا ہو گا اور شاید بعض خدشات کی نشاندہی بھی کی تھی‘ شاید عمران خان نے خود کی تھی۔ آج میں مینجمنٹ کے ایک شخص کے سُپردملک کے اقتصادی معاملات جاننے کے امکان دیکھ رہا ہوں تو بہت سی باتیں سوچ رہا ہوں۔ عمران خان نے جو تشریح کی اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے بارے میں ایک عمومی رائے ہے جو کم از کم گزشتہ ربعہ صدی میں اس ملک میں بیان کی جاتی رہی ہے۔ یہی کہ اس سے کوئی 22صنعتیں پروان چڑھتی ہیں(عمران نے سو دو سو کہا ہے‘ اسے محاورہ یا روز مرہ لیجیے‘ اعداد و شمار کے طور پر نہ لے لیجیے)اس حوالے سے ہانگ کانگ یا مشرق بعید کے بعض دوسرے ممالک کی مثال دی جاتی تھی کہ کس طرح ہائوسنگ نے وہاں کا سارا اقتصادی نقشہ بدل دیا۔ ان دنوں دوبئی پر بھی اس حوالے سے غور ہو رہا تھا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ آیا یہ انڈسٹری ملک کا اقتصادی انجن بننے کی گنجائش رکھتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آیا ہمارے بنکاری کے نظام میں اس حد تک اس انڈسٹری کو سپورٹ کرنے کی گنجائش ہے اور ملک میں اقتصادی طور پر اس کی کھپت ہو سکے گی۔ ہم اتنے گھر بنا سکتے ہیں۔ عمران اسے سرکاری شعبے میں نہیں بنا رہے‘ نجی شعبے کو اس پر اکسا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں نجی طور پر بڑی بڑی سکیمیں بنیں اور چلیں‘ سرکاری سطح پر بھی کوششیں ہوئیں اب تحریک انصاف کے پاس اس کا کون سا ماڈل ہے جو معجزے دکھا سکتا ہے۔ میں اس کی افادیت سے انکاری نہیں ہوں‘ مگر میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ یہ ہماری اقصادیات کا انجن کیسے بن سکتا ہے۔ عمران کا خیال ہے کہ اس سے گزر کر روزگاربھی پیدا ہو گا۔ مگر کیا ایک کروڑ نوکریاں اس راستے سے نکل سکتی ہے۔ آباد والوں کو یہ بات اچھی لگی ہو گی۔ مزید اچھی لگی ہوگی جب عمران نے بتایا ہو گا کہ ان کے والد انجینئر تھے اور ایسی بستیاں بسانے کے منصوبے بنا چکے ہیں۔عمران خان نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ایک دوست شاید لندن میں ہیں‘ ان کو بلوا کر مشورہ کریں گے۔ عمران کی منصوبہ بندی کا یہ کمزور پہلو ہے۔ وہ جب ماہرین کی تلاش کرتا ہے تو اس کی نظر اپنے دوستوں اور جاننے والوں پر پڑتی ہے۔ لازمی نہیں کہ وہ بہترین انتخاب ہو۔ ویسے علیم خان کی موجودگی میں کسی اور کے آنے کی گنجائش کم ہی ہو گی۔ خبر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہوا۔ اس ملک کو بہت کچھ کی ضرورت ہے۔ زراعت میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ عمران مہاتیرکے بہت قائل رہے ہیں۔ ان کی پالیسیوںمیں اس بات کی بڑی اہمیت تھی کہ انہوں نے پہلے زراعت کو ترقی دی۔ مارکیٹ تک سڑکیں بنائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔یہ تو ایک بات ہے۔ اس طرح دوسری بات انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے جس کے بارے میں اسد عمر بھی کہیں تقریر کر رہے تھے۔ ہم گزشتہ بیس سال سے کہہ رہے ہیں کہ اس شعبے میں بھارت بہت آگے نکل گیا۔ ہم میں بہت امکانات ہیں۔ ہمارے لوگوں نے کام بھی کیا ہے۔ مگر جن امکانات کی بات ہوتی ہے‘ وہ بہت دور ہیں۔ ان سب کے ساتھ کوئی شعبہ مینو فیکچرنگ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اس سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ ہمارے ہاں ہیوی مکینکل کمپلیکس کے علاوہ اور بہت سے ادارے تھے‘ اب نام نہیں گنوائوں گا۔ اس کے علاوہ سمال مشین ٹول فیکٹری تھی اگر ہم اپنے ان اداروں سے کام لیتے تو کون سی شے تھی جو یہاں نہ بن سکتی تھی۔ سروسز سیکٹر اپنی جگہ مگر مصنوعات کا کوئی بدل نہیں۔ صرف ہائوسنگ انڈسٹری ہمارے مستقبل کی ضمانت نہیں ہے۔ پہلے ہی بات لمبی ہو گئی ہے۔ مزید کی گنجائش نہیں۔ میں تمام پارٹیوں کے منشور کا منتظر ہوں۔