ایک کتاب کی تلاش تھی۔ لائبریری میں ڈھونڈی تو مل گئی۔ دو نسخے تھے۔ اتفاق سے ممبران نے دونوں لے رکھے تھے۔ ایک نسخہ اپنے لئے محفوظ کرا لیا۔ جس کا مطلب تھا کہ باری آنے پر مطلع کیا جائوں گا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ای میل موصول ہوئی کہ کتاب واپس آ چکی ہے فلاں تاریخ تک انتظار کیا جائے گا۔ اگر تب تک لائبریری جا کر ایشو نہ کرائی تو کسی اور منتظر رکن کو دے دی جائے گی۔ دوسرے دن لائبریری پہنچ گیا۔ رہائش گاہ سے لائبریری کا پیدل فاصلہ بیس پچیس منٹ کا ہے۔ ایک مخصوص الماری میں ریزرو کتابیں پڑی ہوتی ہیں۔ حروف تہجی کے اعتبار سے نام فوراً مل گیا۔ اس کے بعد ایک خاص کمپیوٹر پر جانا تھا۔ اسے آن کیا۔ لائبریری کارڈ پر بنا ہوا۔’’بار کوڈ‘‘ خاص جگہ پر رکھا ۔کتاب کمپیوٹر کے سامنے رکھی۔ کمپیوٹر نے بتایا کہ کتاب ایشو کر دی گئی ہے پھر پوچھا کہ کیا رسید بھی مطلوب ہے؟’’ہاں‘‘ والی جگہ پر سکرین کو ٹچ کیا۔ فوراً رسید باہر نکل آئی۔ اس پر لکھا تھا کہ فلاں کتاب لی گئی ہے اور فلاں تاریخ تک واپس کرنا ہو گی۔ کتاب لے کر باہر آ گیا اس سارے عمل میں لائبریری کے کسی ملازم کسی اہلکار کا کوئی کردار نہ تھا ۔کسی سے بات نہ کرنا پڑی ۔کسی سے اجازت نہ لینا پڑی۔ انسانی رابطہ صفر تھا۔ جنہیں ہم ترقی یافتہ ملک کہتے ہیں، ان میں انسانی رابطے کو ختم کرنے کی یا ہر ممکن حد تک کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ نے ٹرین پر سفر کرنا ہے ۔مشین سے ٹکٹ لیجیے۔ ٹرین کا برقی ٹائم ٹیبل پڑھ کر ٹرین کی روانگی کا وقت دیکھیے۔ پلیٹ فارم نمبر بھی درج ہو گا۔ پلیٹ فارم پر پہنچیں گے تو وہاں پھر ایک برقی بورڈ لگا ہو گا۔ گاڑی آنے میں کتنا وقت ہے؟ یہ ٹرین کس کس سٹاپ پر رکے گی؟ ساری تفصیلات سامنے دیکھی جا سکتی ہیں سفر ختم ہونے تک مسافر کو کسی سے کچھ پوچھنا پڑا نہ رقم دینے کے لئے یا ٹکٹ لینے کے لئے کھڑکی کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ پاسپورٹ ایشو کرانا ہے یا ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ہے یا کوئی اور کام کسی سے ملے بغیر کرا لیا جاتا ہے؟ ذہن اپنے ملک کی طرف چلا گیا کیا ہمارے ہاں ایسا ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے تو اس کایا کلپ کے لئے کتنا عرصہ درکار ہے؟ یاس کا ایک ٹکڑا بادل کی طرح کہیں سے چل کر آیا اور سر پر اپنا سایہ تان گیا سینکڑوں برس لگ جائیں یا شاید اس سے بھی زیادہ! وقت یہاں بے معنی ہے ماورائے تصور!اس کی ایک مثال پہلے بھی کہیں دی ہے۔ سرسید احمد خان نے ڈیڑھ سو سال پہلے برطانیہ کا سفر کیا۔ جتنا فرق اس وقت کے جنوبی ایشیا اور انگلستان میں انہیں نظر آیا‘ آج بھی اتنا ہی ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ! اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی ادارے منظم تھے اب وہ بھی نہیں۔ ریلوے کو ہم آگے تو کیا بڑھاتے‘ جو کچھ میراث میں ملا اسے بھی غرق تنزل کر دیا ۔جی ٹی ایس(گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کی بسیں چلتی تھیں پورا محکمہ، پوری سروس ہی کھائی میں گر پڑی۔ کراچی میں ٹرام چلتی تھی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ پاکستان بنا تو پابندی وقت کا معیار ۔جو بڑوں سے سنا۔ اچھا خاصا تھا۔ آج اس حوالے سے ہم اسفل السافلین میں ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی نقالی جن شعبوں میں ہم نے کی، وہاں بھی نقل تو ہے۔ عقل عنقا ہے، اُوبر کی مثال لے لیجیے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں، مہینوں برسوں اُوبر پر تکیہ کیجیے، کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ فون پر ایپ کھولیے ۔ بلائیے۔ جتنے منٹ بتائے جائیں گے، ٹھیک اتنے منٹ بعد آپ کے سامنے کار کھڑی ہو گی۔ ہم سے یہ سروس بھی نہ چل سکی۔ جو کارپرداز مامور ہیں وہ ہمارے ہی ملک کے امام دین ہیں۔ آپ پنڈی صدر میں منتظر ہیں۔ ڈرائیور سیٹلائٹ ٹائون کے کسی موڑ پر آپ کے لئے کھڑا ہے۔ آپ شادمان میں کھڑے ہیں۔ ڈرائیور کہتاہے اسے جو ایڈریس کمپیوٹر نے بتایا ہے وہ جوہر ٹائون کا ہے! کوئی شے گاڑی میں رہ جائے تو اس پر فاتحہ پڑھ دیجیے۔ اس کالم نگار کی ایک شے اسی طرح رہ گئی۔ ڈرائیور نے نمبر ہی بلاک کر دیا کمپنی آئیں بائیں شائیں کرتی رہی!دوسرے ملک مٹی کو ہاتھ لگائیں تو سونا بن جاتی ہے ہم زر خالص کو چھو لیں۔ راکھ میں تبدیل ہو جائے گا۔ شاید اپنی’’ کسمت‘‘ دو نقطوں والے قاف سے نہیں‘ کتے والے کاف سے ہے۔ ہماری مثال اس شخص کی طرح ہے جس کا ذکر کلام الٰہی میں آیا ہے کہ گونگا ہے۔ کچھ نہیں کر سکتا۔ اپنے مالک پر بوجھ ہے۔ کہیں بھی بھیجا جائے، ناکام واپس لوٹتا ہے! یاس کا بادل سر پر کیا تنا‘ ہٹتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر روشنی کی کرن نے اپنا راستہ بنایا۔ اخبار پڑھا تو جان میں جان آئی! ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں! ہمارا دامن یکسر خالی بھی نہیں! اگر مغربی ملکوں کے پاس نظام ہے سسٹم ہے‘ سائنس ہے‘ ٹیکنالوجی ہے خود کار سلسلے ہیں تو ہمارے پاس اقدار ہیں‘ مسلم لیگ نون کے ایک سرکردہ رہنما نے اطلاع دی ہے کہ نون لیگ اقتدار کی نہیں اعلیٰ اقدار کی جنگ لڑ رہی ہے! اعلیٰ اقدار کی اس جنگ میں شریف خاندان اگلی صف میں ہے اور اقدار کی واپسی کے لئے بھر پور جہاد کر رہاہے۔ جج کو پچاس کروڑ کی پیش کرتا ہے۔ پہلے ویڈیوز بنائی جاتی ہیں پھر ویڈیوزدہ ججوں کو وہاں وہاں تعینات کیا اور کرایا جاتا ہے جہاں ان کے مقدمے پیش ہونے ہیں ججوں کے پورے پورے خاندانوں کو بیرون ملک سیٹل کرانے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ اقدار کی اس جنگ میں وقت کا وزیر اعظم‘ آرمی چیف کو نئی نکور کار کی چابی پیش کرتا ہے۔ شکاگو ٹرائی بیون کی نامہ نگار کم بارکر کو نئے موبائل سیٹ کی پیشکش کر کے دوستی کی درخواست دائر کرتا ہے۔ قومی خزانے کو شیرمادر سمجھتا ہے۔ کروڑوں کے سرکاری فنڈز پر کبھی دختر نیک اختر کو کبھی داماد کو تعینات کرتا ہے۔ قومی ایئر لائن کے جہاز کو ذاتی رکشے کی طرح استعمال کرتا ہے۔ نصف درجن ذاتی رہائش گاہیں سرکاری اخراجات کی چھتری تلے دے دی جاتی ہیں۔ چھپن کمپنیوں کے آفیشل اجلاسوںمیں وزیر اعلیٰ کا صاحبزادہ باقاعدہ بیٹھتا ہے، عدالت اس کا سبب پوچھتی ہے تو جواب دیا جاتا ہے وہ پارٹی کا ورکر ہے!۔ اعلیٰ اقدار کی تفصیل سینکڑوں صفحات کی متقاضی ہے۔ مسلم لیگ نون ان اعلیٰ اقدار کی جنگ لڑ رہی ہے اس جنگ میں جہان صحافت اور دنیائے دانش کے بڑے بڑے نام مسلم لیگ نون کا ساتھ دے رہے ہیں۔ خیر اور شر کا نیکی اور بدی کا۔ حق اور باطل کا یہ معرکہ ازل سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ مسلم لیگ نون اس پرانے میدان جنگ کی نئی مجاہد ہے۔ کامیابی کی صورت میں پاکستان ایک ایسا پل عبور کر لے گا جو اسے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں راتوں رات کھڑا کر دے گا! پاکستان کی ترقی و بقا کے ضامن صرف اور صرف دو خاندان ہیں۔ زرداری خاندان اور شریف خاندان۔ جناب آصف زرداری نے قوم کو امید تو دلائی ہے کہ مستقبل بلاول اور مریم کا ہے مگر کچھ کوتاہ اندیش ان عالی مرتبت خاندانوں کے درپے ہیں۔ ان کوتاہ اندیش کور چشموں کو اتنی تمیز بھی نہیں کہ ملک کی سربراہی ہاتھ میں آئی ہے تو اپنے اثاثوں میں اضافہ کر لیں۔ کچھ فیکٹریاں بنا لیں ،بیرون ملک کچھ جائیدادیں خرید لیں۔ بلاول ہائوس کی طرز پر شہر شہر محلات بنوا لیں۔ جاتی امرا کے خطوط پر ایک شہر عجائبات اپنے نام کھڑا کر دیں یہ پست فہم لوگ ان خاندانوں کے مقابل آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی ہدایت کے لئے دعا گو ہیں ۔ہم اقدار کی اس جنگ میں مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑے ہیں۔