مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی کے دوران ضلع شوپیاں میں مزید چھ کشمیری نوجوان شہید کر دیے۔ دوسری جانب غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی نوجوان شہید جبکہ 120زخمی ہو گئے ہیں۔دنیا کے جس خطے کا بھی جائزہ لیں وہاں ہمیں مسلمان محکوم، مظلوم اور محصور نظر آئیں گے۔70سال گزر گئے کشمیری آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن عالمی برادری نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اقوام متحدہ ‘یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا بھی مظلوم کی آواز بننے کی بجائے ظالم اور جابر قوتوں کا آلہ کاربنا ہواہے۔ بھارتی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد امریکہ نے نریندر مودی پر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن جیسے ہی مودی بھارت کا وزیر اعظم بنا تو امریکہ نے سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا ۔عالمی میڈیا اگر غیر جانبداری سے کام لے‘ اپنے فرائض میں ڈنڈی نہ مارے تو سینکڑوں پردہ پوش حقیقتوں سے نقاب الٹ سکتا ہے لیکن اس کی رپورٹنگ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے استحصال اور غیر مسلموں کے دفاع کے لیے میدان میں موجود ہے۔ کشمیر‘ عراق‘ شام‘ فلسطین ‘میانمر اور لیبیا سمیت دنیا کے کسی بھی شورش زدہ ملک کا جائزہ لیں تو آپ کو وہاں پر مسلمان مولی گاجر کی طرح کٹتے نظر آئیں گے۔ بھارت نے ایک طرف کشمیر ی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اوردوسری طرف بھارتی ریاست آسام میں 40لاکھ مسلمانوں کو بھارتی قومیت سے محروم کر کے بنگلہ دیش بھیجنے پر کام شروع کر رکھاہے۔ آسام میں کئی نسلوں سے لوگ آباد ہیں یہ سبھی افراد برطانوی دور میں مشرقی بنگال اور مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔1971ء میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں ہندو پناہ گزینوں نے یہاں آ کر پناہ لی۔1985ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا ،جس کے تحت 24مارچ 1971ء تک جو بھی ریاست میں سکونت پذیر تھا اسے ریاست کا شہری مانا جائے گا لیکن نریندر مودی نے2019ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری مسلسل تماشہ دیکھ رہی ہے۔ عالمی برادری اگر بھارتی دہشت گردی کے عفریت کو لگام ڈالنے کی سنجیدہ کوشش کرتی تو کشمیریوں کی نسل کشی رک سکتی تھی اور انہیں حق خود ارادیت ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی لیکن عالمی طاقتیں صرف اس وجہ سے کشمیر کی آزادی پر زور نہیں دیتیں کیونکہ وہاں مرنے والے مسلمان ہیں۔ مودی سرکار پیلٹ گنوں کا آزادانہ استعمال کر کے کشمیریوں کو بینائی سے محروم کر رہی ہے۔وہاں انسانی حقوق کی پامالی تاریخ کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، موبائل فون اور انٹر نیٹ کی سروس معطل ہے تاکہ کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی نہ رکھ سکیں۔ دراصل بھارت یہ اوچھے ہتھکنڈے اس لیے استعمال کر رہا ہے کہ آج مورخہ 6اگست بھارتی سپریم کورٹ میں بھارت کے آئین کی شق 35Aکے حوالے سے سماعت ہو رہی ہے ،کشمیر کی تمام سیاسی‘ مذہبی ‘ تجارتی اور شہری تنظیمیں اس بارے احتجاج کر رہی ہیں کہ 35Aشق کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے تاکہ مقبوضہ وادی کے مستقل باشندے اپنی جائیدادیں اور گھر بار محفوظ رکھ سکیں۔ جبکہ مودی سرکاریہ سٹیٹس ختم کرکے وادی میں کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی تگ و دو میںہے کہ وہاں اس کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی بنا پر بھارت کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جو بھارت کی دہشت گرد فوج کی دست برد سے محفوظ رہ گیا ہو۔ یورپی پارلیمنٹ نے اپنے ممبران اور ان کے سٹاف کو مسئلہ کشمیر بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ’’کشمیر جھگڑوں کے 70سال‘‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کی تھی جس میں بھارتی دہشت گردی، بربریت اور انسانیت دشمنی کی لاتعداد داستانیں رقم تھیں ۔ایک باضمیر اور غیرت مند انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ رپورٹ کافی تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ یورپی پارلیمنٹ مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گی اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلوائے گی لیکن یورپی پارلیمنٹ نے بھی صرف رپورٹ شائع کر کے اس پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ بھارت 70سال سے کشمیریوں کا استحصال کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی ادارہ اس پر آواز بلند کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔57اسلامی ممالک نے بھی بھارت کے ظلم و ستم اور دہشت گردی پر چپ سادھ رکھی ہے‘ او آئی سی مسلم امہ کے مسائل سے ویسے ہی بے خبر ہے ۔امریکہ نے جب تل ابیب سے اپنے سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کا اعلان کیا تو مسلم ممالک نے بڑے بڑے دعوے کیے لیکن جب امریکہ نے اپنے اعلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 14مئی 2018ء کو اپنا سفارتخانہ منتقل کر لیا تو مسلم ممالک نے اسی طرح امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ۔بلکہ اب بھی ہر کوئی امریکی خوشنودی کے لیے کام کرتا نظر آتا ہے۔ اگر مسلم ممالک مل کر بھارت اور اسرائیل کا بائیکاٹ کریں‘ ان سے سفارتی تعلقات ختم کریں تو چند دنوں کے اندر ان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی لیکن المیہ یہ ہے کہ نہ تو سبھی اسلامی ممالک اس کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی مسلمانوںکو حقوق دلوانے کے لیے سرگرم ہے۔ بدقسمتی سے آج تک مسلم امہ کو ایسی قیادت نصیب ہی نہیںہوئی جو اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتی ہو۔ مسلم امہ اگر حکمت و دانش‘ تدبر و بصیرت اور کسی قدر جرأت و ہمت سے کام لے تو مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مسلم ممالک کو ان کے لیڈروں نے جس حال تک پہنچایا ہے وہ ایسی سکت ہی نہیں رکھتے کہ کوئی توانا فیصلہ کر سکیں۔ مسلم امہ نے اپنا قومی، وقار ،عزت نفس‘ آزادی ،خود مختاری اور حمیت کو غیروں کے پاس گروی رکھ چھوڑا ہے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعے وہ ہماری تجوریاں بھر دیتے ہیں اور ہم چند کوڑیوں کے عوض اپنی خودی بیچ دیتے ہیں۔گو ماضی قریب میں مملکت خداداد کو ایسی قیادت ہی نصیب نہیں ہوئی جو ان کے مسائل کا مداوا کر سکے۔ لیکن اب عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے ایک ایسی قیادت کی امید پیداہوئی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے بھی اپنی صلاحیتیں بروئے کارلائے گی اور اپنی کھوئی ہوئی مسلم ثقافت اور کردارکو بحال کریگی۔ وہ اس قابل بھی ہو گی کہ بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پرمذاکرات کر کے خطے کا درینہ مسئلہ کشمیر حل کرائے اور قائد اعظم کے ملک کی شہہ رگ کو دشمن کے خونی پنجے سے آزاد کرا ئے۔