14 اگست کو بے سمت ہجوم کی بد تہذیبی اور ہلڑ بازی بد قسمتی سے اس شہر کی ثقافتی روایت رہی ہے۔شہر کے شریف گھرانوں کے مکینوں کو اگر کسی ضروری کام سے گھر کی خواتین کے ساتھ باہر نکلنا پڑ جائے،تو وہ خود کو ایسے بے امان سمجھتے ہیں گویا کسی دشمن کے علاقے میں موجود ہوں۔لیکن اس بار یوم آزادی کو جو کچھ ہوا وہ اس قدر شرمناک تھا کہ کسی سانحے سے کم نہیں۔ایک طرف تو اخلاقی اقدار کے زوال کی انتہا ہے تو دوسری طرف صوبائی دارالحکومت میں انتظامیہ کی ناقابل بیان کوتاہی اور بروقت کارروائی کرنے کی مجرمانہ نااہلی ہے۔ حد یہ ہے ہزاروں کا مجمع جہاں جمع ہوتا ہے وہاں سکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ گریٹر اقبال پارک کے کیمرے تک خراب تھے۔ابتدائی طور پر ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ ساتھ ایک ہجوم کی دست درازی کے ویڈیو دیکھیں،واقعے کا سیاق و سباق ابھی معلوم نہیں تھا لیکن سچی بات ہے یہ منظر ہی اتنا شرمناک تھا کہ اس کی مذمت کے لئے لفظ سجھائی نہیں دے رہے تھے،آہستہ آہستہ اس واقعہ سے جڑی تفصیلات سامنے آتی رہیں،تو معلوم ہوا کہ ٹک ٹاکر لڑکی ہے جس نے اپنے فینز کو مینار پاکستان آنے کے لیے کہا تھا اور اس کے بعد یہ سارا ہنگامہ شروع ہوا۔جس قسم کی تھرڈ کلاس تفریح سوشل میڈیا کے ایسے پلیٹ فارم پر ہوتی ہے،اسی طرح کے فینز مینار پاکستان پہنچے تو معاملات کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ اس میں ہر گز دو رائے نہیں ہیں کہ ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہو،ا وہ سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔اس کی داد رسی اسی صورت میں ممکن ہے کہ جن اوباشوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی انہیں سزا دی جائے۔یہ ہجوم جو مینار پاکستان پر جمع تھا،میرے ملک کا وہ طبقہ ہے جو معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ بیشتر کی زندگی محرومیوں اور حسرتوں میں گزر رہی ہے۔ لیکن ایک ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بدولت ان کے ہاتھوں میں جدید اسمارٹ فون ہے۔ شعور سے عاری یہ طبقہ بھی فور جی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ زندگی میں مثبت تفریح کے مواقع نا پید ہیں، تربیت کا فقدان تو ہے ہی۔ٹک ٹاک اور اس طرح کی دوسری سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک ایسا کلچر پروان چڑھا رہے ہیں،جس میں نام نہاد شہرت ہے، پیسے کے لیے ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے یہاں تک کہ آپ اپنی مذہبی اور اخلاقی قدریں اپنے عزت اور وقار تک داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ہمارے ملک میں کم تعلیم یافتہ طبقے میں یہ کلچر بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ سارے ہجوم کو جس کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ انٹرنیٹ کا کنکشن ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن علم نہیں ہے کہ اس کو استعمال کیسے کیا جائے۔ اس ہجوم کو کیسے ہنرمند بنایا جائے کہ یہ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کریں۔ان کی توانائیوں کو کو کس طرح مثبت طریقے سے چینلائز کیا جائے۔ اس واقعے کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لاہور کے دل میںبدامنی کا بدترین واقعہ ہوتا ہے، ایک لڑکی کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کا ہجوم مبینہ طور پر تین گھنٹے تک دست درازی کرتا رہا،اس وقت امن و امان قائم کرنے والی انتظامیہ کہاں غائب تھی۔یہ پنجاب حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی اگست کے مہینے میں تحریک انصاف کی حکومت اپنے تین سال مکمل ہونے کی خوشیاں بھی منا رہی ہے اور پاکستان میں تبدیلی کے بلند بانگ دعوے بھی کر رہی ہے۔اس سانحہ نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔بے سمت منچلوں کا ہجوم ،بے اندازہ 13 اگست کی رات کو بارہ بجے کا گھنٹہ بجنے کے ساتھ ہی سڑکوں پر نکل آتا ہے اور پھر اگلے دن تک رات تک میں امن و امان اور نظم و ضبط کا سارا نظام نام تلپٹ ہو کے رہ جاتا ہے۔وہ ہلڑبازی ہوتی ہے۔ شریف انسان گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔بدقسمتی ہے کہ اس کو ہم نے آزادی کا دن منانے کا طریقہ سمجھ لیا ہے۔اب جبکہ بدتہذیبی اور بدتمیزی کی ایک پوری روایت موجود ہے تو پھر پنجاب حکومت اس کے مطابق انتظامات کیوں نہ کرسکی؟اس خوفناک انتظامی نااہلی پر صرف چند افسران کو قربانی کا بکرا بنانا کہاں کا انصاف ہے ؟بلند بانگ دعوے اپنی جگہ ہیں کہ بزدار حکومت نے لاہور کے چہرہ بدل دیا ہے، جی ہاں لاہور کے چہرے کو واقعی بدل دیا ہے ایسی بدتہذیبی اور ہلڑبازی اس شہر میں پہلے اتنی دیدہ دلیری سے نہیں ہوئی۔صورتحال یہ ہے کہ ٹک ٹاکر لڑکی کے واقعے سے ایک رات پہلے بھی مینار پاکستان پر شدید ہلڑ بازی ہوئی، بے سمت ہجوم نے واک تھرو گیٹس کو توڑ ڈالے لیڈیز سکیورٹی کیبن کو آگ لگادی ۔انتظامیہ کو اس وقت ہی چوکنا ہو جانا چاہیے تھا۔13 اگست کو ہونے والی ہلڑ بازی پر بھی انتظامیہ بروقت ایکشن نہیں لے سکی۔ڈی آئی جی آپریشنز جو سانحہ مینار پاکستان کے بعد ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ تصویر بنا کر میڈیا کو ریلیز کرتے ہیں، پہلے کہاں تھے؟ ان کی تمام ٹیم یوم آزادی کے دن کہاں تھی، کہ جب لوگوں نے بار بار ون فائیو پر کال کی تو بھی انتظامیہ کی طرف سے بروقت کارروائی نہیں ہوئی۔ اس سانحہ کے بعد بحث چھڑی ہوئی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں کیوں ناکام ہوئے ۔میرے نزدیک صرف والدین ہی نہیں پورا معاشرہ تربیت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ۔اس میں ٹی چینلز اور بے لگام سوشل میڈیا بھی ہے ، اس میں ٹی وی ڈرامے اور ٹاک شوز بھی ہیں ہمارے سیاسی رہنماؤں کے تقریریں اور جو بد زبانی وہ سیاسی حریفوں کے خلاف کرتے ہیں یہ سب عناصر مل کر ہی اس معاشرے کے رہنے والوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں ہے۔ یہ ایسا قومی سانحہ ہے کہ اس پر معاشرے کے سارے سٹیک ہولڈرز کو ملکر سوچنا ہوگا کہ آخر اس سماجی اور اخلاقی زوال کو کیسے روکا جائے ؟