معرکہ کربلا اور واقعہ شہادت تاریخ کا ایسا دل سوز و جاں گداز باب ہے جس کے بیان سے دل پگھل جائیں چنانچہ آج بھی جب کہ اس واقعہ کو تقریباً چودہ صدیاں گزرگئی ہیں،اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مصائب وآلام اور باطل پرستوں کی جانب سے ان پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کا ذکر ہوتا ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے اور دلوں میں رنج و غم اور کرب والم کی جو کیفیت پائی جاتی ہے زبان و قلم اس کیفیت کو کما حقہ دائرہ ٔبیان میں ظاہر کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ خدا جانے کیا کیا اسرار ورموز شہادت سیدناامام حسین علیہ السلام میں پوشیدہ تھے اور کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں اس شہادت سے وابستہ تھیں۔ بہر حال حق تعالیٰ کو اس کا اہتمام منظور تھا اسی لئے اس کے وقوع سے صدیوں پہلے اس کے چرچے ہوگئے ۔ چنانچہ ابن عساکر سے البدایہ والنہایہ میں نقل کیا گیا کہ لوگوں کا ایک لشکر جنگ کے سلسلہ میں روم کی طرف گیا اور وہاں انہوں نے ایک کنیسا (گرجاگھر) میں یہ شعر لکھا ہوا پایا: أترجو امۃ قتلت حسینا: شفاعۃ جدہ یوم الحساب یعنی کیا وہ قوم جس نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے یہ امیدرکھتی ہے کہ قیامت کے دن ان کے جد امجد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی شفاعت بھی کریں گے ۔ لوگوں نے سوال کیا کہ یہ کس کا لکھا ہوا ہے تو کنیسا والوں نے بتایا کہ یہ شعر تمہارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تین سو سال پہلے سے لکھا ہوا ہے ۔(تاریخ ابن عساکر ، البدایہ والنہایہ) واقعہ کربلا کے بعد عالم اسلام میں دکھ، درد اور غم کی لہر دوڑ گئی ۔ شہدائے اہل بیت علیہم السلام کے سر مبارک اور اسیرانِ اہل بیت علیہم السلام لے کرجب یزیدی کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں نیزوں پہ رکھے سروں سے کرامات کا ظہور ہوتارہا، یزیدی افواج کا بد ترین انجام بھی ظاہر ہو تا رہا اور یہ لٹا ہوا قافلہ کوفہ میں ابن زیاد کے دربارمیں پہنچا۔جب عبیداللہ ابن زیاد کے پاس دمشق سے یزید کا پیغام تحریری حکم پہنچا کہ شہداکے سرمبارک اور اسیرانِ اہل بیت کو اس دار الامارت دمشق بھیج دیا جائے تو عبیداللہ ابن زیاد نے رجز بن قیس کی نگرانی میں شہدا کے سر مبارک اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کاقافلہ ملک شام روانہ کر دیاجو کہ منزل بہ منزل یزیدی دارالامارت دمشق کی طرف رواں رہا،اپنوں کی جدائی کا کرب اور اسیری کی حالت میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے یکم صفر المظفر61ھ کویزیدملعون کے دربارمیں دمشق پہنچا تو یزید نے امام عالی مقام علیہ السلام کے سر انور کو سامنے رکھا اور ایک چھڑی آپ کے دندان مبارک پہ لگا کر غرور وتکبر کا اظہار کر تارہااور امام سیدناعلی زین العابدین علیہ السلام کو مال و متاع کا لالچ دینے کی کوشش کی۔ آپ نے فرمایا میں تیری دولت کو ٹھوکر مارتا ہوں اور دمشق کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کی عظمت و شان بیان کی اور یزید کی موجودگی میں اس کے مظالم بیان کیے تومسجد کے نمازیوں میں کہرام بپا ہو گیا۔سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے بھی یزید کے دربار میں ایسا خطبہ دیا کہ یزیدی دربار کے دَرو دیوارہل گئے ۔ جب یزید کوعوامی مخالفت کاخطرہ ہوا تو یزید نے حالات کے پیش نظراہل بیت کی رہائی اور ان کو مدینہ منورہ پہنچانے کے بندوبست کا حکم جاری کر دیا۔ بالجملہ امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام نے معرکۂ کربلا میں صدائے حق بلند کی اور باطل کی ہر طرح سے مخالفت کی حتی ٰ کہ اپنی عظیم شہادت کے ذریعہ امت ِمسلمہ کو یہ پیام دیا کہ کامیابی اقتدار حاصل کرنے کو نہیں کہتے ، بلکہ اعلی ٰمقصد کا حصول کامیابی اور کامرانی کہلاتا ہے ،اسی لئے یزید تخت نشین ہوکر بھی نامراد ہی رہا اور امام عالی مقام شہید ہوکر بھی کامیاب اور بامراد رہے، اس لئے کہ آپ کو مقصود حاصل ہوا،اور آپ کی حقانیت آفتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہے۔مسلمان تو مسلمان دربار یزید میں اغیار تک نے بھی حقانیت ِ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی برملا گواہی دی۔چنانچہ ’’الصواعق المحرقہ ‘‘میں ہے کہ جب یزید نے امام عالی مقام علیہ السلام کے سر اقدس کے ساتھ بے ادبی کی تو اس وقت یزید کے پاس قیصر روم کا سفیر بھی موجود تھا اس نے یزیدیوں کے اعمال و حرکات دیکھ کر کہا:ہمارے پاس ایک جزیرہ کے گرجا میں حضرت عیسی علیہ السلام کے گدھے کے کھر کا نشان اب تک محفوظ ہے سو ہم ہر سال ہدیے اور نذرانے اور تحفے لے کر اس کی زیارت کو جاتے ہیں اور اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح تم لوگ اپنے کعبہ کی کرتے ہو، پس میں گواہی دیتا ہوں کہ تم لوگ جھوٹے اور باطل پرست ہو، اسی طرح اس وقت وہاں ایک یہودی بھی تھا اس نے کہا میں سترویں(۷۰) پشت میں داؤد علیہ السلام کی اولاد سے ہوں لیکن اب تک یہودی میری تعظیم و احترام کرتے ہیں اور تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو بے دریغ قتل کردیا۔(الصواعق المحرقہ )خلاصہ یہ کہ شہزادہ ٔ رسول سیدناامام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ اور تاریخِ انسانی کے چہرے پرایک سیاہ داغ ہے ۔ مگر اس واقعہ سے امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید جب کہ یزید پلید ملعون و مردودٹھہرا ۔