ماڈل مدرسہ اور ماڈل مسجد کے بعد، اَب’’ماڈل خانقاہ‘‘کی طلب اور ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔’’ماڈل مدرسہ‘‘کا معاملہ کم و بیش بیس سال قبل اس وقت پیش آیا،جب 9/11کے بعد، مروجہ دینی مدارس پر عالمی قوتیں تذبذب اور تشکیک کا شکار ہوئیں، پاکستان میں سرکاری سطح پر ’’ماڈل دینی مدارس‘‘کو"Launch"کیا گیا، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ مدرسہ، مسجد اور خانقاہ سرکاری سرپرستی کی بجائے، سوسائٹی کی سپورٹ اور کمیونٹی کے اشتراک سے نموپاتے ہیں، اسی سے ان اداروں میں خیرو برکت کا ورود ہوتا اور معاشرے میں ان کی مرکزیت مضبوط، مستحکم اور مُسلّم ہوتی ہے۔ اسلام آباد ، سکھر اور کراچی کے حاجی کیمپ ، جو حج سیزن کے علاوہ سارا سال فارغ رہتے تھے، اس امر کے لیے مختص ہوئے، وکیل احمد خاں وفاقی سیکرٹری شپ سے، ریٹائرمنٹ کے بعد اس مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بن گئے، پھر وہی ہوا ، جو اس طرح کے کاموں میں ہوتا ہے۔ اسی عرصہ میں’’ماڈل مسجد‘‘کا تصوّر سامنے آیا ،جس کا مقصد اور پس منظر وہی تھا، جس کا اظہار صدر مملکت نے پیر کے روز مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے ممبران سے ملاقات میں کیا، کہ محراب و منبر کو’’سوشل ایشوز‘‘پر بات کرنی چاہے، مسجد کو سوسائٹی کا ’’نیوکلس‘‘اور مدار ہونا چاہیے، خاندان کا سربراہ دنیا سے چلا جائے، تودھونس اور دیگر حیلہ جو ئیوں سے کس طرح جائیداد کی تقسیم مؤخر اور بہنوں کو وراثت سے محروم کر کے، ناجائز مفاد حاصل کیے جاتے ہیں۔ گویا مسجد کو محض چند رسومات تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ تہذیبی، دینی اور تربیتی مرکز کے طور پر اسکو نمایاں اور معتبر کیا جائے، بیس سال ہونے کو آئے، جب جامع مسجد شاہ کمال کو’’ماڈل مسجد‘‘کے طور پر اَپ گریڈ کرتے ہوئے، گورنر خالد مقبول مشائخ و علماء کی ایک وقیع جماعت کے ساتھ افتتاح کے لیے جلوہ آراء ہوئے،مسجد سے متصل اعلیٰ ڈسپنسری ، بہترین درسگاہ اورعلمی و ادبی نشست کدہ آراستہ ہوا ، تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر، ایک ہی امام کے پیچھے، جمعۃ المبارک کی نماز ادا کی۔ اگرچہ ان اہتمامات میں سے بہت کچھ تو محض سیاسی اور وقتی ضرورت کے سبب تھا ، جس کا بنیادی نقطہ لوگوں کو "Engage"رکھنا بھی ہو گا ، کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ ایسے اتفاقات یا حادثات کے سبب اقتدار پانے والی حکومتوں کو، عوام میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے، ایسی بہت سی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ بہرحال۔۔۔ ما بعد ۔۔۔خانقاہ اور تصوّف کے بہت سے ماڈل اور ایڈیشن قومی اور بین الاقوامی ضرورت اور ایجنڈے کے تحت تخلیق پائے، وفاقی سطح پر ایک’’صوفی کونسل‘‘بھی آراستہ ہوئی، اس عہد میں اُس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہوئے، جو غالباً ان دنوں وفاقی وزیر داخلہ تھے، اس’’صوفی کونسل‘‘ کی افتتاحی تقریب حضوری باغ میں ہوئی، جو رنگ و نگہت سے آراستہ تھی۔ ہمارے’’لبرلز‘‘تصوّف کو دین سے الگ کرنے کے درپئے رہے ، جس کے لیے انہوں نے انسانی عالمگیریت کے نام پر مختلف فلسفے تراشے، حالانکہ: یہ پہلا سبق تھا کتابِ ھُدٰا کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا وہی دوست ہے خالقِ دوسَرَا کا خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں خانقاہ کیا ہے؟اس کا معنوی اور فکری دائر ہ عمل اور خدّوخال کیا ہوں؟آج کے دورجدید میں ایک معیاری خانقاہ کس کو کہا جاسکتا ہے ؟چوتھا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج کے عہد میں اس انقلاب آفریں خانقاہی نظام کا عکس یا پَرتَو کہیں موجود ہے ، جہاں جاکر گناہوں کے سَوت دُھل جائیں اور انوارِ الیہیہ کے مشاہدات نصیب ہوں، ابتدائی دو نکات تونظری اور علمی نوعیت کے ہیں، اس پر علمائے تصوّف نے کافی کچھ لکھا ہے اور دنیا کی ہر تہذیب، تمدن اور مذہب میں تخلیہ ، تصفیہ اور تزکیہ کا تصوّر، کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے ، اور تو اور ہمارے ہمسائے ملک ہندوستان میں بھی،جہاں انہیں آشرم،یعنی رشیوں اور سادھوؤں کے رہنے کی جگہ ، جس میں رہنے والے سادھو دنیا سے قطعی دستبرداری اختیار کرتے ہوئے، ساری زندگی تجرد و تنہائی میں بسر کرنے کے درپے رہتے ہیں، مسیحی خانقاہوں کے راہب عمر بھر شادی نہ کرنے اور دنیاوی علائق سے مجتنب رہنے کی قسم کھاتے ہیں۔ بلکہ رومن ایمپائر نے عیسائیت کو جب سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا ، تو اسکی ترویج و تشہیر کے لیے ، قومی خزانے سے انتہائی عالی شان خانقاہیں تعمیر کروائیں، جسکا بہت زیادہ تذکرہ ظہوراسلام سے متصل واقعات میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے ۔ بالخصوص عربوں کے تجارتی قافلے جب شام کی طرف جاتے،تو راستے میں عیسائیوں کے انہی صومعات اور عبادت گاہوں میں قیام ہوتا ، جہاں تارک الدنیا عیسائی راہب اپنی عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے،بحیرہ راہب سمیت بہت سے واقعات ایسے ہی تناظر میں وقوع پذیر ہوئے۔ مسلمان صوفیاء نے جو خانقاہیں یا جماعت خانے تعمیر و تشکیل کئے، انکا دائرہ فکر و عمل از حد مختلف اور معتبر تھا ، جس کا بنیادی مقصد کسی فرد کے اندر نیکی کے داعیے اور جذبے کو مضبوط اور مستحکم کرنا اور اُ سے ایک ایسی شخصیت میں ڈھالنا،جو سوسائٹی کے لیے مفید اور فیض رساں ہو ،’’انسان سازی‘‘کائنات کا سب سے اہم اور مشکل کام ہے اور یہ فریضہ صوفیاء کی یہ خانقاہیں ہی سر انجام دینے کا ملکہ اور حوصلہ رکھتی ہیں، یہ وہ غیر سرکاری تربیت گاہیں تھیں، جہاں روحانی و دینی علم کے علاوہ انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ مند کیا جاتا ، شریعت اور طریقت کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور محبت آفرینی کے گراں بہااصولوں سے شناسائی اور شناوری کا داعیہ اور جذبہ پیدا کیا جاتا ۔ مسلم خانقاہیں بالعموم تین قسم کی تھیں ، پہلی قسم میں صوفیاء اور مہمانوں کے لیے الگ الگ کمرے مخصوص تھے ، دوسری قسم’’جماعت خانوں‘‘ کی تھی ، جہاں شاگرد اور مریدین مختلف گروہوں میں ایک ساتھ رہتے ، تیسری قسم چھوٹی خانقاہ’’زاویہ‘‘پر مشتمل تھی ، جہاں صوفی دوسروں سے لاتعلق ہو کراپنی ریاضت اور مجاہدے میں مگن رہتا ، تاہم یہ علیحدگی عارضی نوعیت کی ہوتی ، گوشہ نشینی،طریقت ہی کی ایک منزل شمار ہوتی ۔۔۔ یہ لاتعلقی مستقل نوعیت کی نہ تھی ، ان خانقاہوں میں نمایاں شخصیات ، رفقا وہم نشین اور خدام اقامت گزیں رہتے ، ’’ مہمان داری‘‘تین دن تک محدود ہوتی ،اس سے زیادہ قیام کی صورت میں ، عام لوگوں کے قواعدکا اطلاق ہوتا ، خانقاہوں کا نظام الاوقات انتہائی منظم اور مرتّب قواعد پر مشتمل تھا ، صبح کاذب سے لے کر رات ڈھلنے تک، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے حوالے سے دستور اور اصول تھے ، عبادت و ریاضت ، مجاہدہ ومحاسبہ، تزکیہ وطہارت سے لے کر لباس پہننے، کھانا کھانے، مہمان داری ، شیوخ اور بزرگوں کے آداب اور طرزِتکلم و طریقت،ہر کام کے لیے اوقات اور آداب تھے، اس نظم اور ڈسپلن کو اختیار نہ کرنے والے فرد کے لیے زیادہ دیر تک قیام ممکن نہ ہوتا، خانقاہ کے معمولات میں چشتیہ کے ہاں سماع کا اہتمام ہوتا، سلسلے کے بزرگوں کے خاص ایّام بالخصوص یوم وصال وغیرہ پر عرس اور لنگر یعنی اجتماعی کھانا۔۔۔جس میں ہر کوئی امتیاز و تفریق کے بغیر شریک ہوسکتا۔ خانقاہ اور جماعت خانے کی سرگرمیوں کا مرکز و مدار،شیخ طریقت ہوتا،جو حاضرین اور زائرین کے لیے روحانی و سماجی قائد اور راہبر و راہنما کی حیثیت رکھتا۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ ان خانقاہوں اور جماعت خانوں میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب بالخصوص ہندو بھی آتے، گویا ہندوستان میں صوفیاء کی یہ خانقاہیں بین المذاہب مکالمے کا اہم ترین مقام تھا ،جہاں ہندو ، جوگی، رشی اور سادھو سنت بھی علمی موضوعات پر گفت و شنید اور بحث و مباحثہ کے لیے آتے ،حضرت بابا فرید ؒ کی خانقاہ میں یہ روایت از حد مضبوط اور مستحکم تھی۔
’’ماڈل خانقاہ‘‘
هفته 03 جولائی 2021ء
ماڈل مدرسہ اور ماڈل مسجد کے بعد، اَب’’ماڈل خانقاہ‘‘کی طلب اور ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔’’ماڈل مدرسہ‘‘کا معاملہ کم و بیش بیس سال قبل اس وقت پیش آیا،جب 9/11کے بعد، مروجہ دینی مدارس پر عالمی قوتیں تذبذب اور تشکیک کا شکار ہوئیں، پاکستان میں سرکاری سطح پر ’’ماڈل دینی مدارس‘‘کو"Launch"کیا گیا، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ مدرسہ، مسجد اور خانقاہ سرکاری سرپرستی کی بجائے، سوسائٹی کی سپورٹ اور کمیونٹی کے اشتراک سے نموپاتے ہیں، اسی سے ان اداروں میں خیرو برکت کا ورود ہوتا اور معاشرے میں ان کی مرکزیت مضبوط، مستحکم اور مُسلّم ہوتی ہے۔ اسلام آباد ، سکھر اور کراچی کے حاجی کیمپ ، جو حج سیزن کے علاوہ سارا سال فارغ رہتے تھے، اس امر کے لیے مختص ہوئے، وکیل احمد خاں وفاقی سیکرٹری شپ سے، ریٹائرمنٹ کے بعد اس مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بن گئے، پھر وہی ہوا ، جو اس طرح کے کاموں میں ہوتا ہے۔ اسی عرصہ میں’’ماڈل مسجد‘‘کا تصوّر سامنے آیا ،جس کا مقصد اور پس منظر وہی تھا، جس کا اظہار صدر مملکت نے پیر کے روز مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے ممبران سے ملاقات میں کیا، کہ محراب و منبر کو’’سوشل ایشوز‘‘پر بات کرنی چاہے، مسجد کو سوسائٹی کا ’’نیوکلس‘‘اور مدار ہونا چاہیے، خاندان کا سربراہ دنیا سے چلا جائے، تودھونس اور دیگر حیلہ جو ئیوں سے کس طرح جائیداد کی تقسیم مؤخر اور بہنوں کو وراثت سے محروم کر کے، ناجائز مفاد حاصل کیے جاتے ہیں۔ گویا مسجد کو محض چند رسومات تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ تہذیبی، دینی اور تربیتی مرکز کے طور پر اسکو نمایاں اور معتبر کیا جائے، بیس سال ہونے کو آئے، جب جامع مسجد شاہ کمال کو’’ماڈل مسجد‘‘کے طور پر اَپ گریڈ کرتے ہوئے، گورنر خالد مقبول مشائخ و علماء کی ایک وقیع جماعت کے ساتھ افتتاح کے لیے جلوہ آراء ہوئے،مسجد سے متصل اعلیٰ ڈسپنسری ، بہترین درسگاہ اورعلمی و ادبی نشست کدہ آراستہ ہوا ، تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر، ایک ہی امام کے پیچھے، جمعۃ المبارک کی نماز ادا کی۔ اگرچہ ان اہتمامات میں سے بہت کچھ تو محض سیاسی اور وقتی ضرورت کے سبب تھا ، جس کا بنیادی نقطہ لوگوں کو "Engage"رکھنا بھی ہو گا ، کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ ایسے اتفاقات یا حادثات کے سبب اقتدار پانے والی حکومتوں کو، عوام میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے، ایسی بہت سی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ بہرحال۔۔۔ ما بعد ۔۔۔خانقاہ اور تصوّف کے بہت سے ماڈل اور ایڈیشن قومی اور بین الاقوامی ضرورت اور ایجنڈے کے تحت تخلیق پائے، وفاقی سطح پر ایک’’صوفی کونسل‘‘بھی آراستہ ہوئی، اس عہد میں اُس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہوئے، جو غالباً ان دنوں وفاقی وزیر داخلہ تھے، اس’’صوفی کونسل‘‘ کی افتتاحی تقریب حضوری باغ میں ہوئی، جو رنگ و نگہت سے آراستہ تھی۔ ہمارے’’لبرلز‘‘تصوّف کو دین سے الگ کرنے کے درپئے رہے ، جس کے لیے انہوں نے انسانی عالمگیریت کے نام پر مختلف فلسفے تراشے، حالانکہ: یہ پہلا سبق تھا کتابِ ھُدٰا کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا وہی دوست ہے خالقِ دوسَرَا کا خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں خانقاہ کیا ہے؟اس کا معنوی اور فکری دائر ہ عمل اور خدّوخال کیا ہوں؟آج کے دورجدید میں ایک معیاری خانقاہ کس کو کہا جاسکتا ہے ؟چوتھا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج کے عہد میں اس انقلاب آفریں خانقاہی نظام کا عکس یا پَرتَو کہیں موجود ہے ، جہاں جاکر گناہوں کے سَوت دُھل جائیں اور انوارِ الیہیہ کے مشاہدات نصیب ہوں، ابتدائی دو نکات تونظری اور علمی نوعیت کے ہیں، اس پر علمائے تصوّف نے کافی کچھ لکھا ہے اور دنیا کی ہر تہذیب، تمدن اور مذہب میں تخلیہ ، تصفیہ اور تزکیہ کا تصوّر، کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے ، اور تو اور ہمارے ہمسائے ملک ہندوستان میں بھی،جہاں انہیں آشرم،یعنی رشیوں اور سادھوؤں کے رہنے کی جگہ ، جس میں رہنے والے سادھو دنیا سے قطعی دستبرداری اختیار کرتے ہوئے، ساری زندگی تجرد و تنہائی میں بسر کرنے کے درپے رہتے ہیں، مسیحی خانقاہوں کے راہب عمر بھر شادی نہ کرنے اور دنیاوی علائق سے مجتنب رہنے کی قسم کھاتے ہیں۔ بلکہ رومن ایمپائر نے عیسائیت کو جب سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا ، تو اسکی ترویج و تشہیر کے لیے ، قومی خزانے سے انتہائی عالی شان خانقاہیں تعمیر کروائیں، جسکا بہت زیادہ تذکرہ ظہوراسلام سے متصل واقعات میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے ۔ بالخصوص عربوں کے تجارتی قافلے جب شام کی طرف جاتے،تو راستے میں عیسائیوں کے انہی صومعات اور عبادت گاہوں میں قیام ہوتا ، جہاں تارک الدنیا عیسائی راہب اپنی عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے،بحیرہ راہب سمیت بہت سے واقعات ایسے ہی تناظر میں وقوع پذیر ہوئے۔ مسلمان صوفیاء نے جو خانقاہیں یا جماعت خانے تعمیر و تشکیل کئے، انکا دائرہ فکر و عمل از حد مختلف اور معتبر تھا ، جس کا بنیادی مقصد کسی فرد کے اندر نیکی کے داعیے اور جذبے کو مضبوط اور مستحکم کرنا اور اُ سے ایک ایسی شخصیت میں ڈھالنا،جو سوسائٹی کے لیے مفید اور فیض رساں ہو ،’’انسان سازی‘‘کائنات کا سب سے اہم اور مشکل کام ہے اور یہ فریضہ صوفیاء کی یہ خانقاہیں ہی سر انجام دینے کا ملکہ اور حوصلہ رکھتی ہیں، یہ وہ غیر سرکاری تربیت گاہیں تھیں، جہاں روحانی و دینی علم کے علاوہ انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ مند کیا جاتا ، شریعت اور طریقت کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور محبت آفرینی کے گراں بہااصولوں سے شناسائی اور شناوری کا داعیہ اور جذبہ پیدا کیا جاتا ۔ مسلم خانقاہیں بالعموم تین قسم کی تھیں ، پہلی قسم میں صوفیاء اور مہمانوں کے لیے الگ الگ کمرے مخصوص تھے ، دوسری قسم’’جماعت خانوں‘‘ کی تھی ، جہاں شاگرد اور مریدین مختلف گروہوں میں ایک ساتھ رہتے ، تیسری قسم چھوٹی خانقاہ’’زاویہ‘‘پر مشتمل تھی ، جہاں صوفی دوسروں سے لاتعلق ہو کراپنی ریاضت اور مجاہدے میں مگن رہتا ، تاہم یہ علیحدگی عارضی نوعیت کی ہوتی ، گوشہ نشینی،طریقت ہی کی ایک منزل شمار ہوتی ۔۔۔ یہ لاتعلقی مستقل نوعیت کی نہ تھی ، ان خانقاہوں میں نمایاں شخصیات ، رفقا وہم نشین اور خدام اقامت گزیں رہتے ، ’’ مہمان داری‘‘تین دن تک محدود ہوتی ،اس سے زیادہ قیام کی صورت میں ، عام لوگوں کے قواعدکا اطلاق ہوتا ، خانقاہوں کا نظام الاوقات انتہائی منظم اور مرتّب قواعد پر مشتمل تھا ، صبح کاذب سے لے کر رات ڈھلنے تک، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے حوالے سے دستور اور اصول تھے ، عبادت و ریاضت ، مجاہدہ ومحاسبہ، تزکیہ وطہارت سے لے کر لباس پہننے، کھانا کھانے، مہمان داری ، شیوخ اور بزرگوں کے آداب اور طرزِتکلم و طریقت،ہر کام کے لیے اوقات اور آداب تھے، اس نظم اور ڈسپلن کو اختیار نہ کرنے والے فرد کے لیے زیادہ دیر تک قیام ممکن نہ ہوتا، خانقاہ کے معمولات میں چشتیہ کے ہاں سماع کا اہتمام ہوتا، سلسلے کے بزرگوں کے خاص ایّام بالخصوص یوم وصال وغیرہ پر عرس اور لنگر یعنی اجتماعی کھانا۔۔۔جس میں ہر کوئی امتیاز و تفریق کے بغیر شریک ہوسکتا۔ خانقاہ اور جماعت خانے کی سرگرمیوں کا مرکز و مدار،شیخ طریقت ہوتا،جو حاضرین اور زائرین کے لیے روحانی و سماجی قائد اور راہبر و راہنما کی حیثیت رکھتا۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ ان خانقاہوں اور جماعت خانوں میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب بالخصوص ہندو بھی آتے، گویا ہندوستان میں صوفیاء کی یہ خانقاہیں بین المذاہب مکالمے کا اہم ترین مقام تھا ،جہاں ہندو ، جوگی، رشی اور سادھو سنت بھی علمی موضوعات پر گفت و شنید اور بحث و مباحثہ کے لیے آتے ،حضرت بابا فرید ؒ کی خانقاہ میں یہ روایت از حد مضبوط اور مستحکم تھی۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں هفته 03 جولائی 2021ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں