پاکستانیوں کی ارض مقدس سے جذباتی محبت اور اس کی حفاظت کے لئے آخری سانس تک لڑنے اور کٹ مرنے کا عزم غیر مشروط ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاستوں کے تعلقات جذبات نہیں مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔ عالمی منظر نامے میں ریاستوں کی نئی صف بندیاں جاری ہیں ۔چین امریکہ کی واحد سپر پاور کی حیثیت کو چیلنج کر رہا ہے دوسری طرف امریکہ نے اپنی حیثیت تسلیم کروانے کے لئے نہ صرف بھارت، جاپان آسٹریلیا کے ساتھ مل کر چین کے خلاف محاذ بھی بنا رہا ہے بلکہ امریکی بحری بیڑے کی جنوبی چین کے سمندر میں موجودگی چین کو مسلسل مشتعل کر رہے ہیں۔ روس کے پانیوں کی طرف بڑھتے امریکی بحری بیڑے کو روس کی دھمکی کے بعد فرار ہونا پڑا۔ عسکری حکمت عملی کے ساتھ خاموش ڈپلومیسی بھی اپنے عروج پر ہے۔ عالمی شطرنج پر تمام ممالک اپنے مہرے چل رہے ہیں۔14اگست کو دبئی اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد مسلمان ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب نے گو خود سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے فلسطین کے قابل قبول حل کی شرط رکھی ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری طور پر اس ملاقات کے انکار کے باوجود سعودی وزیر خارجہ نے امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں تسلیم کیا کہ سعودی عرب اسرائیل سے نارملائزیشن کے عمل کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکی میڈیا اسرائیلی وزیر اعظم کے طیارے کے سعودی عرب کے شہر ’’نیوم‘‘ میں اترنے کا فلائٹ ڈیٹا تک نکال لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ سعودی عرب 21جنوری 2021ء سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لے ۔ گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد کی اسرائیل کے وزیر اعظم سے خفیہ ملاقات نے عالمی ڈپلومیسی کو مزید مشکل بنا دیا ہے عالمی میڈیا سعودی عرب کی طرف سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو کے دعوے بھی کر رہا ہے اور دبائو کے لئے خاموش ڈپلومیسی کے تانے بانے جوڑے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کا 1.5ارب ڈالر مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کا مطالبہ دلیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستانیوں کے ورک ویزوں پر پابندی کو اسرائیل امارات قربت سے جوڑا جا رہا ہے۔ الجزیرہ میں ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو بڑھانے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجنے کی دھمکی دیںگے۔ سعودی حکمرانوں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ پاکستان کی معیشت تارکین وطن کے زرمبادلہ کے سہارے کھڑی ہے۔ اس لئے سعودی حکمران معیشت کا سانس روک کر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے 80لاکھ کے لگ بھگ تارکین وطن سالانہ 21ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں ان 80لاکھ میں سے 39لاکھ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کام کرتے ہیں 15لاکھ پاکستانی سعودی عرب اور 12لاکھ یو اے ای میں ہیں۔ یو اے ای نے پاکستانیوں پر ویزے کی پابندی کا جواز کورونا کو بتایا ہے مگر یو اے ای نے جن 11 ممالک پر ویزوں کی پابندی عائد کی ہے ان میں ترکی ‘ ایران، یمن، شام، عراق، صومالیہ، لیبیا ،کینیا اور افغانستان تمام وہ ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے پاکستان کی آبادی 22کروڑ کے لگ بھگ ہے اور 21نومبر تک سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں کورونا کے روزانہ 2843کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ امارات کی ایک کروڑ کی آبادی میں 1296 مریض روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں اسرائیل کا تناسب بھی یو اے ای کے برابر ہے جبکہ بھارت میں روزانہ 50ہزار نئے مریض کورونا کا شکار ہورہے ہیں مگر یو اے ای نے بھارت اور اسرائیل کو پابندی سے استثنیٰ فراہم کیاہے۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کا مقصد کیا ہے؟ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو کیا پاکستان کے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات نارمل ہو جائیں گے؟ عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں اور اسرائیل کے معاملے کو عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لئے پاکستان پر دبائو محض ایک چال ہے۔ اصل مسئلہ پاکستان کو چین کے اثر سے نکالنا اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یہ کھیل اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے عمل سے بھی بہت پہلے سے شروع ہے ۔15اگست 2019ء کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے متنازعہ علاقے کو بھارت کا حصہ بنا لیا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور پاکستان کے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود سعودی عرب اور او آئی سی نے بھارت کے اس اقدامات کی مخالفت نہیں۔ اگر پاکستان معاشی ناکہ بندی کے باوجود بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تو سعودی عرب اور امارات مشرق وسطیٰ سے پاکستانی مزدوروں کو بے دخل کروانے کے ساتھ او آئی سی کے فورم کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے اقدام کو چیلنج کریں گے یہ اس لئے ہو گا کیونکہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہے جب تک گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک سی پیک کی حیثیت مشکوک اور فوائد ثمر آور نہ ہوں گے۔ ٹائم آف اسرائیل پہلے ہی اسرائیل سے بھارت جانے والے طیاروں کے سعودی فضائی حدود کے 72 سال بعد استعمال کی اجازت کو ’’ناقابل یقین حقیقت ‘‘لکھ چکا ہے۔ چین امریکہ مخاصمت نے دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کے دھانے پر اور پاکستان کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے ۔امریکی پالیسی ساز سعودی حکمرانوں کو پاکستان کو چین اور سی پیک سے دستبرداری کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔سعودی عرب ایک طرف ترکی اور قطر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف ترکی کی مصنوعات پر پابندی سے ترکی کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکا ہے اسی طرح سعودی عرب کے متحدہ عرب امارات اور بحرین کو ساتھ ملا کر قطر پر حملے کو امریکہ نے آخری لمحات پر رکوایا تھا۔ دوسری طرف جب نیوم میں نیتن یاہو اور شہزادہ محمد کی ملاقات ہو رہی تھی اس وقت سعودی عرب کی سب سے بڑی ریفائنری پر حوثیوں نے ڈرون حملہ کیا عسکری ماہرین کو اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں اورایران کے پاس اس حملے کی صلاحیت نہیں اور یہ کہ اسرائیل اپنی پراکسی کے ذریعے سعودی عرب کو خوف زدہ کرنے کے لئے حوثیوں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے عالمی منظر نامے میں جو بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے ہاتھ اسرائیل اور امریکہ ہیںمگر اس سارے کھیل کا ہدف سی پیک کو سبو تاژ کرنااور پاکستان کے جوہری دانت نکالنا ہے۔ ان حالات میںعبرت مچھلی شہری کا شعر صادق آتا ہے: سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا