دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا کب ہے وصال یار کی محرومیوں کا غم یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا جی درست! جناب عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ عہد نبھانا یا وعدہ پورا کرنا انسان کے بس میں کب ہوتا ہے۔ ’’روز کہتا ہوں بھول جائوں اسے، روز یہ بات بھول جاتا ہوں‘‘ کم از کم اب یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ’’وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا‘‘ وعدوں کو چھوڑیے، انقلاب سے مگر کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ’’روحِ امم کی حیات، کشمکش انقلاب‘‘ ہمارے یفض صاحب بھی اسی انقلاب کے لیے کوشاں رہے اور اس کوشش میں وہ سلاخوں کے پیچھے بھی جا پہنچے تھے۔ مجھے اس سے کوئی بحث نہیں، مجھے تو ان کی ایک پیاری سی بات یاد آ گئی کہ ایک روز کسی نوجوان نے اسی انقلابی صورت حال سے تنگ آ کر فیض صاحب سے پوچھ لیا کہ ’’فیض صاحب! یہ انقلاب کب آئے گا؟ فیض جو اپنے تدبراور بردباری میں مشہور تھے۔ بولے ’’آ جائے گا، آ جائے گا، ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے‘‘۔ کیا کریں بھائی ادھر تو ’’ہر بوا لہوس نے حسن پرستی شعار کی‘‘۔ تعبیر خوب نکلی ہے خلقت کے خواب کی ظالم بھی بات کرنے لگا انقلاب کی اب کے باتیں نہیں ہوں گی سچ مچ انقلاب آئے گا۔ تبدیلی تو خیر آ چکی اور ہر شخص اسے اندر تک محسوس کر رہا ہے۔ خان صاحب لاکھ اعتراف کرتے رہیں کہ ان کی تیاری نہیں تھی اور وہ باہر بیٹھ کر غلط اندازے لگاتے رہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ تبدیلی آ چکی۔ اعتراف تو ہم ہی کریں گے کہ تبدیلی ہم میں آئی ہے۔ یہ تبدیلی نہیں آئی تو خان صاحب میں نہیں آئی۔ وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بات انقلاب کی ہو رہی تھی۔ یونہی ایک شعر یاد آ گیا۔ جب کہیں انقلاب ہوتا ہے قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے مگر اب کون شہاب نامہ لکھے گا۔ ویسے ایک بات ہے کہ انقلاب لانے میں اگر کوئی کامیاب ہوا ہے تو وہ کورونا صاحب ہیں معاف کیجیے کورونا کو استعارا ہرگز نہ سمجھا جائے کیونکہ کچھ لوگ ڈینگی کو علامت کے طور استعمال میں لاتے رہے ہیں۔ کورونا نے تو پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ہمارے ہاں تو اللہ نے کرم کیا اور معاملہ کنٹرول رہا۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر ہم نے کورونا کے سبب تعلیم میں انقلابی صورت حال بیدار کر دی۔ میں ابھی تازہ شمارہ برہان میں ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ یورپ میں اور خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ میں صورت حال کئی گنا خراب ہے مگر وہاں سکول کالج بند نہیں ہوئے اور تعلیم جاری ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بقول 15سال کی عمر تک کے بچوں پر کورونا کے اثرات نہیں۔ بعض جگہ تو ایک بھی بچہ رپورٹ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں تو ایس او پیز بھی استعمال ہو رہے ہیں اور اس وقت بھی ایک دن چھوڑ کر ایک دن طالب علم سکول جاتا ہے۔ ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ بچوں کا ایک سیشن برباد ہو چکا ہے۔ ابھی تو اس میگزین میں ’’تعلیمی دہشت گردی‘‘ کا ایک مضمون تھا۔ اس پر پھر کبھی سہی، پتہ نہیں اقبالؔ نے کس کے لیے کہا تھا: تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں فی الحال تو ہمیں سینٹ الیکشن کا معرکہ درپیش ہے۔ اوپن بیلٹ کے لیے آرڈی ننس جاری ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ عظیم قدم گھوڑوں یا گدھوں کو بکنے سے روکنے کے لیے ہے۔ پر ان کے لیے ہرگز نہیں جو نہ بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں۔ پی ڈی ایم دہائی دے رہی ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن کا طریق کار تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئینی انتشار اپنی جگہ مگر حکومت کو شفافیت لانی ہے۔ آپ ایسے ہی کہہ لیں کہ ’’دیر آید درست آید۔ یہ لوگ کب تک بکتے رہیں گے اور کوئی کب تک انہیں خریدتا رہے گا۔ یہ بکنے والے بھی تو کمال ہیں۔ بعض تو تین تین جگہ سے پیسے پکڑ چکے ہیں۔ بلاول فرما رہے ہیں کہ خان صاحب اپنے ممبران پر اعتبار نہیں۔ وہ ممبران بھی تو اعتبار کے قابل نہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ ان بے وفا گھوڑوں کو لے جا کر چھانگا مانگا بھی باندھا جاتا رہا ہے اور انہیں مری کی فضائوں میں چارہ کھلایا جاتا رہا ہے۔ دل چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھوڑ کر گانا سنا جائے: ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا ذرا سی ٹھیس پہنچے گی یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا ہائے ہائے یہ سنگ دل عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ان کے ووٹوں کو بیچتے ہیں۔ کبھی کبھی بے اختیار ہنسی بھی آتی ہے کہ اس سیاست میں بڑے بڑے دعوے کرنے والے بھی بے اعتبارے ہو جاتے ہیں۔ کون بھول سکتا ہے کہ خان اعظم کتنے اچھے لگتے تھے کہ جب وہ کہتے تھے کہ یہ ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت دی جاتی ہے، یہ قوم کے ساتھ ظلم ہے اور اب وہ مقام آ گیا کہ وہی ظلم وہ خود فرما رہے ہیں۔ جو بھی ہے محبت او رجنگ میں سب چلتا ہے تو اس وقت رسہ کشی جاری ہے۔ اس رسہ کشی سے ایک تصویر ذہن میں آ گئی تو دل باغ باغ ہو گیا۔ قارئین! بس یونہی دل میں خیال آ گیا کہ آپ بھی میرے ساتھ محظوظ ہو جائیں۔ اس تصویر میں تو سیالکوٹ کے ایک پروگرام میں محترمہ فردوس عاشق اعوان گئیں اوررسہ کشی کے مقابل میں شریک ہوئیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ رسہ کھینچنے کے مقابلے میں دونوں طرف کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ایک طرف کے کھلاڑیوں کو ’’مہری‘‘ یعنی بڑی کھلاڑی فردوس عاشق اعوان ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ طلبا و اساتذہ کا دل رکھنے کے لیے وہ بھی شریک ہیں وگرنہ ایک طرف وہ اکیلی ہی کافی تھیں۔ رسہ کشی میں ان کی مہارت ظاہر ہے۔ تو خان پی ایم ڈی سے وہ چومکھی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ بہرحال رسہ کشی جاری ہے اور عوام تماشائی ہیں۔ بے چارے تماشہ بھی نہ دیکھیں تو کیا کریں۔ عوام میں غریب شامل نہیں ہیں۔ وہ زندگی کو تلاش کر رہے ہیں: تو قادرِ و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات