زمانہ قبل از اسلام میں جمعہ کے دن کو " یوم العروبہ" کہا جاتا تھا،نبی اکرم ﷺکے اجدادمیں قُصّی کی شخصیت بہت معروف اور معتبرہے۔۔۔ کہ انہوں نے مکہ کی شہری ریاست کو منظم کر کے اسمیں باقاعدہ انتظامی محکمے تخلیق کیے اور قریش کے اثرورسوخ کو اس بستی میں مضبوط اور مستحکم کیا۔ قصی کے پر دادا یعنی نبی اکرم ﷺ کے ساتویں دادا کعب بن لوی کی شخصیت بھی تاریخ عرب میں بہت ممتاز اور معتبر مقام کی حامل تھی، کعب وہ اوّلین ہستی ہیں، جو ہر جمعہ یعنی"یوم العروبہ" کو اپنے قبیلہــ" قریش" کو اکھٹا کرکے،خطبہ ارشاد فرماتے۔ ان خطبات میں،ان کے خالص جذبوں اور سچے نظریوںکی جھلک بھر پورانداز میں موجود تھی، وہ اپنے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اسکی اطاعت و بندگی کا حکم، دینِ ابرہیم کی روشنی میں اپنی قوم کو دیتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے عرفان کی ترغیب اور زمین و آسمان کی تخلیق، گردش لیل ونہاراور دیگر مظاہرِفطرت میں غوروفکر کی دعوت دیتے۔ وہ لوگوں کو صلہ رحمی کی تلقین اور ایفائے عہد کی تاکید کرتے،سوسائٹی میں امن و سلامتی کا فروغ اور فقرآومساکین کی مدد کی نصیحت کرتے۔ وہ اپنے قبیلے کو نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی بشارت دیتے اور بتاتے کہ انکی ولادت با سعادت اسی بستی اور اسی خاندان میں ہوگی۔ وہ اپنی قوم کو تاکید فرماتے کہ انہیں حضور ﷺ کا عہد مبارک اگر نصیب ہو، تو فوراً ان پر ایمان لائیں اور ان کے معاون و مدد گار بنیں۔ ان کے خطبات عربی فصاحت کا پیکر ، نبی ﷺکی محبت کا مجموعہ اور انکے اشعار آپؐ سے والہانہ محبت کے مظہر ہیں،یہاں صرف تبرک کے طور پر ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ ہو : " اے کاش!میں حضوؐر کی دعوت کے وقت حاضر ہوتا، جب قریش، حق کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہونگیـ" عرب میں حضرت کعب کو بڑی قدرو منز لت حاصل تھی، وہ حج کے ایام میں لوگوں کو خطبہ دیتے ، انکی وفات کی تاریخ سے اہلِ عرب نے ایک کیلنڈر بھی جاری کر رکھا تھا، جو"عام الفیل"تک جاری رہا، آپ ہی نے عروبہ کا نام" یوم الجمعہ" رکھا، لیکن اس نام کو شہرت میسر نہ آسکی اور اہل عرب اسے" یوم العروبہ" ہی کہتے رہے۔ کعب بن لوی اور حضو ر ﷺ کی بعثت کے درمیان تقریباً پانچ سو ساٹھ سال کا فاصلہ ہے۔بیعتِ عقبہ اولیٰ جسمیں یثرب کے 12 خوش نصیب افراد نے بیعت اور قبول اسلام کی سعادت حاصل کی، تو ان کی خواہش پر ، حضرت مصعب بن عمیر کو بطور مبلغ روانہ کیا گیا ۔ انکی پر خلوص مساعی سے مدینہ میں اسلام کے نور کی روشنی گھر گھر پھیلنے لگی اور کافی لوگ مسلمان ہوگئے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ ہفتہ میں ایک دن" یوم السبت" میں یہودی اکھٹے ہو کر اپنی مذہبی رسومات اور عبادات کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح نصارٰی یہ اہتمام اتوار کے دن کرتے ہیں ، حضرت مصعبؓ کا خیال تھا کہ ہفتہ میں کوئی ایک دن، ہمارا بھی ہو، جس میں ہم اکھٹے ہو کر اللہ کا ذکر اور اسکی عبادت کی سعادت حاصل کریں۔ انہوں نے اپنے اس اجتماع کے لیے " یوم العروبہ" کا دن منتخب کیا، چنانچہ اس روز یثرب، جو ابھی مدینہ منورہ نہیں بنا تھا ، کے سارے مسلمان اکھٹے ہو ئے ، اور حضر ت ا سعد بن زرارہ، جو انصاری صحابی تھے ، نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی، یہ وہ پہلا جمعہ تھا، جو اسلامی تاریخ میں ادا ہوا،اور یوں یہ دن یوم العروبہ سے " یوم الجمعہ" معروف ہوا اور معتبر ہوگیا۔ نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف فرما ہونے سے پہلے، قبا میں مقیم ہوئے، جو کہ یثرب کی نواحی بستی تھی، یہاں پر آپﷺ نے " مسجد قبا" کی بنیاد رکھی، آپﷺ نے سوموار، منگل، بدھ اور جمعرات قبا ہی میں قیام فرمایا اور جمعہ کے روز آپ وہاں سے یثرب کیطرف روانہ ہوئے، تاکہ اسے"مدینہ طیبہ"بننے کا شرف عطا فرمائیں، آپﷺ بنی سالم بن عوف کی وادی میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہوگیا،نبیؐ نے وہیں توقف فرمایا، خطبہ جمعہ ارشاد ہوا، اور نبی اکرمﷺ کی اقتدا میں یہاں پر جمعہ کی اولین نماز ادا کی گئی ۔ یہ وہ اولین جمعہ تھا جو حضور ﷺنے ادا فرمایا۔قرآن پاک کی سورۃ الجمعہ کے آخری رکوع میں، نماز جمعہ کے احکام اور آداب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بالخصوص ایت 9 اور10 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو!جب(تمہیں)بلایا جائے جمعہ کی نماز کیطرف، تو دوڑ کر جائو اللہ کے ذکر کیطرف، اور اپنے کاروبار (خریدوفروخت) فوراً چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم(حقیقت)کو جانتے ہو۔ پھر جب پوری ہوچکے نماز، تو پھیل جائو زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل سے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتے رہاکروـ"۔یہاں پر جمعہ کی نماز کے بعد زمین پر پھیل جانے اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کا حکم"وجوب"کیلئے نہیں بلکہ اباحت کیلئے ہے،کیونکہ جمعہ کی اذان کے بعد کاروبار سے منع کردیا گیا تھا، جس کی اب صراحت اور اجازت بیان ہوئی ہے ۔ جسکا ایک خاص پس منظر یہ بھی ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا اشیائے خوردنی نایاب اور گراں ہوگئیں، لوگ سخت پریشان تھے، جمعہ کے روز جبکہ جمعہ کا خطبہ جاری تھا کہ اچانک دحیہ کلبی، جوکہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے، سامان سے لداکارواں لیکر شام سے مدینہ پہنچے اور سامان خوردو نوش اور روزمرہ کے استعمال کی بہم رسانی کا اعلان کردیا،مدینہ میں ڈھول پیٹا گیا اور منادی کرنے والے نے ندا لگادی، اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں نماز کی مصروفیت کے سبب، سامان کی خرید میں تاخیر اور پھر کمیابی یا نایابی کا معاملہ نہ ہو جائے، مسجد نبوی خالی ہوگئی اور صرف 12 اصحاب باقی رہ گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرکت کو سخت نا پسند فرمایا اور یہ اٰیت نازل ہوئی ، جسمیںانہیں آئندہ ایسی حرکت سے باز رہنے کا تائیدی حکم جاری ہوا،اور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا گیا کہ اللہ تبارک و تعالی کے پاس نعمتوں کے جو خزانے ہیں وہ اس لہوو لعب اور تجارت سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ تمہارے لیے رزق کے خزانے اسی کے دست قدرت میں ہیں، اور تمہیں اپنا رزق اسی سے طلب کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ جمعہ کے روز کے معمولات کے حوالے سے نبی اکرمﷺکا یہ فرمان بھی ہمارے پیش نظر رہے۔ "حضرت ابودردارضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن کثرت سے ملائکہ حاضر ہو تے ہیں اور جب بھی کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کے فارغ ہونے سے پہلے وہ درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔میں نے عرض کیاـ:وفات کے بعد بھی ؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجساد کو حرام کردیا ہے۔ پس اللہ کا نبیﷺ (اپنے مزار میں) زندہ ہے، اسے رزق دیا جاتا ہے"۔اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہوتا ہے قبر کے فتنے سے اللہ پاک اسے محفوظ رکھتا ہے ۔