وبا کے دنوں میں ہر کاروبار بند ہونے کے باوجود ڈالر کی قدر میں اضافہ تعجب خیز معاملہ ہے۔ بدھ کے روز پاکستان میں ڈالر 165روپے کے برابر جا پہنچا۔ یہ اب تک ملک میں ڈالر کی بلند ترین قدر ہے۔ رپورٹس کے مطابق امریکی نقدی کی قدر میں 3روز کے اندر 8.45روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 600ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس صورت حال کا نوٹس لے کر سٹیٹ بنک کو تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کمزور انتظامی گرفت اور مطلوبہ فنی قابلیت سے محروم افراد کی وجہ سے پاکستان میں ایک بحران اپنے ساتھ کئی دوسرے بحرانوں کو باندھ کر لے آتا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ فروری سے کرونا کی وبا سے متعلق اطلاعات آنے لگی تھیں۔ ان اطلاعات کے بعد عالمی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔ کرنسی مارکیٹ کو توقع ہے کہ جولائی 2020میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ اس صورت حال میں بعض بین الاقوامی کاروباری افراد کی طرف سے ڈالر ذخیرہ کرنے کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں۔ فروری کے آخری ہفتہ میں ڈالر کی بین الاقوامی منڈی میں قدر 1.2فیصد کم ہوئی جبکہ سخت طبی بحران کے باوجود یورو کی قدر میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ امریکہ کے کاروباری افراد کو اس بات پر تشویش ہے کہ امریکی حکومت کرونا وائرس کے ڈالر پر منفی اثرات کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ کرونا اب چین کی بجائے امریکہ اور یورپ میں پھیل رہاہے۔ اس سے امریکہ کا سفری کاروبار اور سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جہاںکاروباری ادارے‘ بینک حکومتیں اور افراد ڈالر خریدتے تھے وہاں ڈالر کی طلب میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں جاپانی ین کی قدر میں 0.5فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پائونڈ سٹرلنگ کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 0.3فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی طلب چند مخصوص وجوہات کی بنا پر بڑھتی ہے۔ ڈالر کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے جسے وقتاً فوقتاً بیرونی قرض‘ تیل کی درآمد اور چین سے مشینری کی درآمد کے لئے ڈالروں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ ڈالر کا ایک بڑا خریدار وہ نجی کاروباری ادارے ہوتے ہیں جو بیرونی منڈیوں سے مال کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ بیرونی ممالک کا سفر کرتی ہے۔ مسافروں کو مقامی کرنسی کے بدلے زاد راہ کے لئے ٹریولر چیک یا ڈالر خریدنا پڑتے ہیں۔ فروری 2020ء سے لے کر مارچ کے آخری عشرہ تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نے درآمدی تیل کی مقدار کم کر دی ہے‘ قطر سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو فراہم کی جانے والی ایل پی جی کی سپلائی میں کمی کر دے۔ چین اور ایران سے ملحقہ سرحدیں کئی ہفتے بند رہنے کے بعد انتہائی ضروری تجارتی سامان کے لئے جزوی طور پر کھولی گئی ہیں تاہم اس سے تجارتی عمل رکا ہوا ہے۔ اکثر بین الاقوامی فضائی کمپنیاں پاکستان میں اپنا آپریشن بند کر چکی ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن نے بھی اپنی پروازیں کرونا کے خوف سے بند کر دی ہیں۔ لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔ ان حالات میں یہ امر قابل غور ہے کہ ڈالر کی ضرورت جن مقاصد کے لئے ہوتی ہے سردست ان میں سے کوئی درپیش نہیں۔ پھر کون ہے جو ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کا کھیل رچا کر ایک نیا بحران ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔حکومت کئی طرح کے فرائض انجام دیتی ہے۔ریاست کی بے شمار ضروریات ہوتی ہیں۔فرد واحد وزیر اعظم یا صدر کی حیثیت سے ریاست کے تمام معاملات کی نگرانی نہیں کر سکتا۔ ہر شعبہ کی ایک وزارت ہوتی ہے۔ اس وزارت کا نگران وزیر ہوتا ہے۔ اس کے ماتحت آزمودہ کار افراد کی مشینری ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد ہوتے ہیں۔ وزارت تجارت‘ منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ کے حکام اس امر سے پل پل باخبر رہتے ہیں کہ معاشی و مالیاتی امور کسی خرابی کے بغیر انجام دیے جا رہے ہیں۔ انٹیلی جنس ادارے چوکس رہتے ہیں کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے پائے۔ ان حالات میں جب بنا کسی ٹھوس وجہ کے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں خرابی موجود ہے۔ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے عوض پاکستانی حکومت نے تسلیم کر رکھا ہے کہ وہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کے نرخ کنٹرول کرنے کے لئے مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ شرط اپنی جگہ لیکن سٹیٹ بنک ان وجوہات سے تو آگاہ کر سکتا ہے جو ڈالر کی طلب میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے اس معاملے کا نوٹس لینا خوش آئند ہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم آٹا اور گندم بحران کے ذمہ داروں کے تعین کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ بھی مرتب کی جا چکی ہے جس کو تاحال عام نہیں کیا جا سکا۔ اب جب سارا ملک کرونا وائرس سے لڑ رہا ہے تو مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے‘ اشیاء کی قلت پیدا کرنے والے ‘ گراں فروش اور ذخیرہ اندوز طبقات نے ملکی معیشت کی جڑوں پر وار کر دیا ہے۔ یہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اسے التوا میں رکھنے کا مطلب ذمہ دار عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ہمارا قومی مزاج اصلاح چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کسی دبائو اور مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈالر کی قدر میں اضافے کے اسباب کی تحقیقات کروائیں اور اصلاح احوال کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا انتظام فرمائیں جو انسانی اور قومی وقار سے بڑھ کر صرف ذاتی فائدے کو اولیت دیتے ہیں۔