آئی ایم ایف معاہدے کے ضمن میں پاکستانی روپے کی قدر گرنے کی افواہوں کے باعث اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اٹھان دیکھنے میں آئی۔انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت148 تک دیکھی گئی جبکہ کاروبار کے اختتام پرڈالر147 روپے پر بند ہوا ہے ۔ڈالر کی نئی اڑان کے بعد پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 588 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تو کر لیا لیکن اس کی شرائط ابھی تک سامنے نہیں آئیں، جس کے باعث مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال قائم ہے ‘اسی کے باعث ڈالر کی قیمت کو اچانک پر لگ جاتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے اور مارکیٹ سے بے یقینی کی صورتحال کے خاتمے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط کو فی الفور منظر عام پر لانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کرنسی مارکیٹ میں استحکام آئے گا بلکہ افواہیں بھی دم توڑ جائیں گی اور معیشت مضبوط ہو گی۔ جبکہ اسی تناظر میں تاجر بزنس کی درست طور پر منصوبہ بندی کر سکیں گے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت تاجر برادری کو تذبذب میں رکھ کر ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا ہے جو معیشت کے لئے تباہ کن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ یہاں پر ایکسچینج کمپنیاں بنکوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پہلے مارکیٹ سے ڈالر غائب کرتی ہیںبعدازاں جیسے ہی مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ بڑھتی ہے تو وہ مہنگے داموں ڈالر فروخت کرنا شروع کر دیتی ہیں جس کے باعث مارکیٹ میں ایک بھونچال سا آ جاتا ہے اور یوں مافیاچند گھنٹوں میں اربوں روپے کما کر ایک طرف ہو جاتا ہے لیکن ان کی اس ہوس زر میں تاجر اور عام آدمی پس کر رہ جاتا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کا زیادہ نقصان امپورٹرکو ہوتا ہے کیونکہ جو چیز عالمی مارکیٹ میں پہلے 100روپے میں مل رہی ہوتی ہے اچانک 110کی ہو جاتی ہے جس کے باعث صنعتی شعبے کو نقصان ہوتا ہے ۔ اچانک قیمت بڑھنے سے مشینری کی درآمد بھی رک جاتی ہے ۔ باہر سے سرمایہ کار بھی آپ کے ملک میں نہیں آتے کیونکہ جب سرمایہ کار نفع کو اپنی ملکی کرنسی میں تبدیل کرتے ہیں تو نفع کی شرح کم ہوتی ہے یوں وہ بہتر حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ جبکہ درآمدات میں کمی کا لوگوں کے معیار زندگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے کیونکہ انہیں چیز مہنگی اور کوالٹی کمزور ملتی ہے۔ یوں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شہری اس سے متاثر ہوتا ہے جو حکومتی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج کھڑاہوجاتا ہے۔ ڈالر کی قیمت کا عام آدمی کی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے کیونکہ کرنسی کی ویلیو میں کمی کے باعث ہی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے باعث مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ایسے ایشوز کو لے کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور یوں عالمی سطح پر حکومت کے بارے منفی تاثر قائم ہوتا ہے۔ گزشتہ روز ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے سے بیرونی قرضوں میں ہوشربااضافہ ہو گیا صاف ظاہر ہے اس کا بوجھ بھی عام آدمی پر آئے گا جو پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پستے شہریوں کو مزید مشتعل کرے گا۔ جبکہ تاجر برادری ‘امپورٹر ز، ایکسپورٹرز اور ٹیکسٹائل کی صنعت سے منسلک افراد میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری برآمدات کم اور درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس کے باعث تجارتی خسارہ بھی زیادہ ہو رہاہے اور روپے کی قدر و قیمت میں کمی حکومت کو غیر مقبول کررہی ہے۔ موجودہ حکومت یہ دعوے تو بہت کرتی ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لئے ماضی کی نسبت سے زیادہ کام کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ چند دن کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جو تمام اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو پر لگا دیتا ہے۔ عوام اس پر احتجاج کر کے ابھی بیٹھے نہیں ہوتے کہ ڈالر اڑان پکڑ لیتا ہے، عوام جب اس پر بات کرتے ہیں تو اسی اثناء میں حکومت دیگر چیزوں پر ٹیکس عائد کر دیتی ہے۔ در حقیقت عوام ایسے ہی حکومتی اقدامات سے نالاں ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ بدقسمتی سے عوامی غیظ و غضب کا علم ہونے کے باوجود حکومت پھر اسی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لے کر اسے واپس لانے کا کہا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک کہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں؟ آخر وہ کرنسی ایکسچینج کمپنیز اور مافیاز کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم کو ڈالر کی قیمت مستحکم رکھنے کے لئے تجاویز دی گئی ہیں اگر ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنا لیا جائے تو کسی حد تک ڈالر کی کمی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جن میں بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کو 10ہزارڈالر کی بجائے 3ہزارڈالر ساتھ لیجانے کا پابند کیا جائے۔ افغانستان کو برآمدات صرف بنک ایل سی کے ذریعے کی جائیں۔ اسی طرح بار بار بیرون ملک سفر کرنے والے افراد پر کڑی نظر رکھی جائے۔ یہ مثبت تجاویز ہیں انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ دیگر فارمولے بھی آزمائے جا چکے ہیں ایک مرتبہ اسے بھی اپنا لیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کو بھی متحرک کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پائی جانے والی شرائط کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ سیاسی‘ کاروباری اور عوامی حلقوں میں پائی جانے والی بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے ‘ اس میں تاخیر مزید مسائل پیدا کرے گی۔ جس طرح حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کے فیصلے میں تاخیر کی ہے آج ملک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے اگر حکومت نے اب بھی اقدامات کرنے میں تاخیری حربے آزمائے تو پھر ڈالر کی بڑھتی قیمت کو روکنا مشکل نہیں ناممکن ہو جائے گا۔جو معاشی عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنے گی جس کا اس وقت ملک کسی طور بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔