امریکی ڈالر کی قیمت ایک دفعہ پھر آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی بے قدری بدستور جاری ہے‘ صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر چار روپے اضافے کے بعد 128روپے 26پیسے کا ہو گیا ہے جبکہ انٹربنک مارکیٹ میں چھ روپے اضافے کے ساتھ ڈالر پہلی بار 127روپے 50پیسے پر پہنچ گیا ۔پاکستانی روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی اتنی لمبی چھلانگ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہماری معیشت کس حال میں ہے اور کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والی سابق حکومت کی پالیسیوں سے ملکی معیشت کو کس قدر گزند پہنچا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ ہوش ربا اضافہ اس امر کا غماز ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ رواں سال کے آغاز پر ڈالر کی قیمت 110روپے 50پیسے تھی جس میں مختلف اوقات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے‘ حتیٰ کہ جمعہ کی شام تک ڈالر 121روپے 54پیسے کا ہو گیا ۔چار روز کے اندرڈالر کی قیمت میں نہ صرف چھ روپے کا اضافہ ہوا بلکہ پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہونے سے غیر ملکی قرضوں کے حجم میں بھی 540ارب روپے کا اضافہ ہو گیااوراس طرح غیر ملکی قرضوں کے حجم میں گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک 19کھرب 80ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ضروری ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنایا جائے اور ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جس سے روپے کی قدر میں اضافہ ہو سکے ۔اس کا بہت حد تک دارومدار آنے والی حکومت پر ہو گا اور یہ اس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ اگر پاکستانی روپے کی بے قدری نہ روکی گئی تو نئی حکومت کو ناقابل برداشت غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کا سامنا ہو گا جس سے نکلنا اس کے لیے نہ صرف انتہائی مشکل ہو گا بلکہ عوام کو بھی مہنگائی کے ایک بہت بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔