سٹیٹ بنک نے چوری چھپے بیرون ملک ڈالرز کی منتقلی پر دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان سے کرپشن کے ذریعے کمائی گئی 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم ہر سال بیرون ملک منتقلی ہوتی ہے۔ کرپٹ اشرافیہ قومی دولت لوٹ کر دیار غیر میں سرمایہ کاری کرتی ہے اور ملک قرضوں میں جکڑتا جا رہا ہے۔ باعث تشویش امر تو یہ ہے کہ قومی وسائل کی لوٹ مار میں صرف سیاسی اشرافیہ اور کرپٹ افسر شاہی ہی ملوث نہیں بلکہ کاروباری طبقہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف نے تاجروں اور صنعت کاروں کے وفد سے ملاقات میں تاجر برادری کی توجہ ا س جانب مبذول کروائی تھی کہ ملک سے امپورٹ بل کی مد میں 12 ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کئے مگر ٹیکس صرف 6 ارب ڈالر کی امپورٹ پر ادا کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف پہلے ہی پاکستان کو اسی شبہ میں گرے لسٹ میں شامل کئے ہوئے ہے کہ پاکستان سے غیرقانونی سرمایہ دہشت گردوں کو منتقل ہوتا ہے۔ اس الزام کی نفی اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ ماضی میں ماڈل اور لانچز کے ذریعے کروڑوں ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کے معاملات سامنے آ چکے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو سٹیٹ بنک کا چوری چھپے ڈالر منتقل کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کروانے کا فیصلہ درست محسوس ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہی سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی کو روکا اور قومی وسائل کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔