ہمیشہ کی طرح گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہونے کوتھا کہ بڑے صاحبزادے نے ماں سے سوپ کی فرمائش کر دی۔ چھٹی کا پورا دن میرے ساتھ ونڈو شاپنگ کرنے، گھومنے باہر کھانا کھانے میں گزارا ‘گھر کی چیزوں سے بے فکر بیگم صاحبہ کو ورکنگ ڈے پر یاد آیا کہ کھانے پکانے کا سامان تو ختم ہو چکا ہے۔وہی پرانی کھچ کھچ شروع، جو میں ہی کرتا ہوں ۔کل سارا دن گھر پہ تھا، باہر گھنٹوں گھومتے رہے بتا دیتیں خرید لیتے۔اور وہی پرانا جواب، آج کے لئے تو ہے لیکن سوپ بنانے کی چیزیں تو لانے والی ہیں۔خیر طویل بحث سے بچتے ہوئے کہا اچھا ابھی لا دیتا ہوں۔ فرمایا سوپ کے لئے مکئی چاہئیے ہو گی ، بند ڈبے میں ابلی ہوئی ملتی ہے سٹور سے وہ بھی لیتے آئیے گا۔ میں نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ریڑھی والے سے لے آئوں راستے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ضرور لیں لیکن ریت والے ابلے ہوئے بھٹے چاہئیں۔ خیر مرکز کی طرف خریداری کے لئے روانہ ہوا تو مرکزی سڑک کی نکڑ پر ہی بھٹے والا مل گیا۔ اس سے چار بھٹے طلب کئے۔جب قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ 30روپ کا ایک ہے۔ سچی بات ہے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ قیمت درست ہے یا نہیں۔ ایسے ہی ریڑھی والے پر اپنی باخبری کا رعب جھاڑنے کے لئے کہا مہنگے دے رہے ہو۔ اس نے انتہائی لجاجت سے کہا کہ 25 روپے کا منڈی سے مل رہا ہے اس لئے30کا دے رہا ہوں۔ آپکو تو پتہ ہے ڈالر مہنگا ہو گیا ہے۔ پہلے 15 کا ملتا تھا تو 20کا بیچتے تھے۔ اب ڈالر اوپر جانے سے منڈی سے 25کا مل رہا ہے تو پانچ روپے منافع تو جائز ہے۔میں حیران و پریشان اسکی شکل دیکھتا رہ گیا۔ ڈالر مہنگا ہوا ہے لیکن ایسا بھی کیا کہ 108روپے کا ڈالر اگر130 کا ہو گیا ہے تو 15روپے کا بھٹہ اسی تناسب سے مہنگا نہ ہو اگر اسکا کوئی تعلق زر مبادلہ سے ہے۔اگر ڈالر کی قدر میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے تو بھٹے کی قیمت میں اس کے تناسب سے چار روپے بڑھنے چاہئیے تھے مگر منڈی والے نے بڑھائے یا نہیں لیکن ریڑھی والے نے دس روپے بڑھا دئیے۔بہت دیر تک سوچتا رہا کہ کیا واقعی ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں یا ڈالر کی قیمت زیادہ ہو اسکا اشیاء کی قیمتوں پر ایسا ہی اثر پڑتا ہے۔کیا پٹرولیم اورڈالر کی قیمت کم ہو تو اسی تناسب سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ چند ماہ قبل رمضان شریف کی سعادت اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں میرے سمیت تمام تاجروں کو بھی حاصل ہوئی۔ اس دوران ڈالر اوپر گیانہ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا لیکن اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ یہ پہلا مقدس مہینہ نہیں تھا جس میں ہمارے تاجر بھائی عاقبت کے ساتھ ساتھ دنیا سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گرانی سے لیکر ذخیرہ اندوزی تک سب کام کرتے ہیں۔ لیکن شکر ہے کہ عید گزرتے ہی قیمتیں واپس اصل جگہ پر آ جاتی ہیں۔اللہ بھلا کرے ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کا‘ یہ ایک دفعہ اوپر چلی جائیں تو مہنگائی کا طوفان امڈ آتا ہے اور پھر بھلے ان کی قیمت زمیں بوس ہو جائے ہمارے تاجر طبقے کی طے کی ہوئی قیمتیں واپس لوٹنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ایک زمانہ تھا جب ملک عزیز کے ہر شہر اور قصبے میں سرکاری عماّل پر مشتمل پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوتی تھیں جو گاہے بگاہے بازاروں میں گھوم کر اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ کہیں نرخوں میں غیر ضروری اضافہ تو نہیں کیا گیا۔ موقع پر جرمانہ ہوتا تھا۔ ہر دکان پر نمایاں جگہ پر ریٹ لسٹ آویزاں کرنا ضروری تھا۔یہ قانوناً شاید اب بھی ضروری ہے لیکن کسی دکان پر آپکو نظر نہیں آئے گی۔اگر کسی کے پاس ہو گی بھی تو وہ چھپا کر رکھی گئی ہو گی تا کہ اگر خدانخواستہ کوئی سرکاری افسر پوچھنے آ ہی جائے تو اسے دکھائی جا سکے۔ باقی شہروں میں بھی شاید ایسی صورتحال ہو لیکن وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر کے حساب سے اشیائے ضروریہ صرف کی قیمتیں متعین ہیں۔ اگر آپ ایف سیریز کے کسی سیکٹرمیں نہیں رہتے تو آپ قدرے خوش قسمت ہیں کیونکہ یہاں پر ہر چیز کی قیمت یہاں کے رہنے والوں کی استطاعت کے مطابق رکھی گئی ہے۔ دکان کیا ایف سیریز کے تمام سیکٹروں میںریڑھی والوں کے ریٹس بھی دوسری جگہوں سے مختلف ہیں۔ جی سیریز کے سیکٹرز میں ذرا قیمتیں کم ہیں اور اگر آپ راولپنڈی چلے جائیں تو کافی معقول ہو جاتی ہیں۔یہاں پر ملازمت پیشہ افراد کی تعداد زیادہ ہے اور وہ ماہانہ تنخواہ کی وصولی کے بعد پہلا کام مہینے بھر کی گروسری خریدنے کا کرتے ہیں۔ میں بھی ایسے افراد میں شامل ہوں۔بڑے گروسری سٹورز کا بھی یہی حال ہے۔ایک جگہ سے اگر آپکو مہینے کی گروسری پندرہ ہزار روپے میں مل رہی ہے تو یہی اشیا ء کسی پوش سیکٹر کے گروسری سٹور سے بیس ہزار سے کم میں کیا ملیں گی۔ اگر آپ ذرا برانڈ کے بارے میں حساس واقع ہوئے ہیں تو یہاں پر ایک ایسی بھی مارکیٹ ہے جہاں سے یہی گروسری آپکو چالیس ہزار تک ملے گی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی نگرانی نہ ہونے کے باعث ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ اسلام آباد میں اشیائے صرف کو تھوک کے بھائو سپلائی کرنے والامختلف سٹورز کو انکی حیثیت اور محل وقوع کے اعتبار سے مختلف ریٹس میں فراہم کرے۔ حکومت اگر ڈالر کی قیمت کے اشیائے صرف پر جعلی اثر سے بچنا چاہتی ہے تو فوری طور پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا تا کہ ایک بھٹے کی قیمت میں اگر35 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے تو اس حساب سے ماہانہ گروسری پر کئی ہزار روپے کا فرق پڑ جائے گا۔عوام یہ مالی بوجھ بہ امر مجبوری اٹھا لیں گے لیکن اسکی سیاسی قیمت کا بوجھ نئے پاکستان والی حکومت سے شاید نہ اٹھا یا جا سکے۔