پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگانے کی دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ ہے۔ اس کی طرف سے سازشوں کے الزامات ہر سیاستدان لگاتا رہا ہے، اور حکمرانی ختم ہونے کے بعد خاص طور پر ملک کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی آگاہی دی جاتی رہی ہے ۔ اس بات سے انکار مشکل ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کاکو ئی کردار نہیں رہا۔اگر بہت پرانی باتوں کا ذکر نہ بھی کریں تو اس کا ذکرآئی جے آئی کی تشکیل سے لے کر 2013 ء کے انتخابات تک بار بار ملتا ہے۔آئی جے آئی کا مقدمہ تو زیر تفتیش ہے جس میں جنرل اسد درانی کا بیان حلفی موجود ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں۔انہوں نے اپنے کردار کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے جنرل اسد درانی کو اس سارے واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن اس قصے کی تردید نہیں کی۔ایک دوروز میں میاں نواز شریف کا بھی اس بارے میں ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا امکان ہے ۔اگر وہ پیش ہوتے ہیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ان الزامات کی تردید کریں گے۔جبکہ اس رقم کی تقسیم کے حوالے سے کچھ سیاستدان اقرار کر چکے ہیں کہ انہیں پیشکش ہوئی تھی جس میں سیدہ عابدہ حسین شامل ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا کر تی رہی ہے یا کیا کرنا چاہتی ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ انکو ایسے سیاستدان ہر دور میں میسر رہے جو رقم وصولی کو تیار ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے لئے سب کچھ کرنے اور ہر قسم کا بیان دینے، مخالف سیاستدانوں کوہر طرح سے زک پہنچانے پر بھی ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے اقتدار سنبھالنے کے بعد طرز حکمرانی تبدیل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ چکر کاٹے جا رہے ہیں ۔الزام اپنی اسٹیبلشمنٹ پہ دھریں یا کوئی بین ا لاقوامی سازش تلاش کریں جب تک سیاستدان اپنے مورچے کو مضبوط نہیں کرتے جو کہ پارلیمنٹ ہے اور وہیں سے اپنی جمہوریت کی جنگ نہیں لڑتے سڑکوں ، گلیوں میں نعرے لگانے اور الزام لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے لگا۔اداروں کے اپنی حدود میں رہنے کا بہت واویلا ہوتا ہے لیکن دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ ادارے اشتراک کار کے بغیر کام کر سکیں۔ہر جگہ سٹریٹجک معاملات پر پالیسی سازی کے لئے فوج، خفیہ ادارے سکیورٹی صورتحال، بین الاقوامی معاملات پر اپنا تجزیہ اور اطلاعات حکومت تک پہنچاتے ہیں جو کہ پالیسیوں کی تشکیل میں مدد گار ہوتے ہیں اور حکمران صحیح فیصلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں آئینی حدود میں رہنے سے مراد یہ ہے کہ حکمران ہر معاملے پر نہ صرف Exclusive Right چاہتے ہیں بلکہ مشورہ جتنا بھی صائب ہو،وہ اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں۔حالیہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں نہ کوئی پوچھے اور نہ بتائے۔ حتیٰ کہ کابینہ و پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار دینے کو تیار نہیں ہیں۔اس بارے میںتکرار سے ذکر ہو چکا ہے کہ پارلیمنٹ کو کبھی اہم فیصلوں میں شامل نہیں کیا گیا، کابینہ کے اجلاس بھی کبھی کبھار ہوتے تھے۔اگر کبھی تمام سیاسی جماعتوں نے ملکر نیشنل ایکشن پلان بنا لیا تو اس پر عملدرآمد کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اداروں کے آئینی حدود میں رہنے سے مراد ہے کہ: گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے سپریم کورٹ کو یہ ماننے کو تیار نہیں، نیب کے اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے، فوج اگر زبانی اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ مارشل لاء لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اس کو بھی اشتعال دلانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے اور بار بار کی جاتی ہے۔اس سلسلہ میں میاں نواز شریف نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ بہت حیران کن ہے۔ انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ انکے اس بیانئے کو بھی ڈبو گیا ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے بعد بنایا تھا اور جس کے بارے میں بہت سے دانشوروں کا بھی خیال تھا کہ عوام میں اسکی پذیرائی ہو رہی ہے۔اگرچہ میرے خیال میں یہ سارا بیانیہ گرمی کے موسم میں ہونے والے انتخابات میں جب لوڈ شیڈنگ اپنے عروج پر ہو گی پسینے کی طرح بہہ جائے گا۔لیکن انتخابات سے پہلے ہی میاں صاحب نے حسب عادت ایسا بیان داغ دیا ہے جو انکی اپنی صفوں میں بد مست ہاتھی کی طرح گھس گیا ہے اور انکے برادر خورد سمیت ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لئے سر پٹ بھاگ پڑاہے ۔مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں کے اندر کی صورتحال اس کی واضح مثال ہے جس کے بعد لوگوں کو وضاحت دینی پڑتی ہے کہ ہمارے درمیان جاسوسی کے الزامات کا کوئی تبادلہ نہیں ہوااور نہ ہی ہم نے ایکدوسرے کو گریبان سے پکڑا ہے اور گالیاں دی ہیں۔میاں شہباز شریف بطور پارٹی صدر ہونے والے پہلے اجلاس میں میاں نواز شریف سے اس انٹرویو دلوانے والے کو کوستے رہے لیکن اس ظلم کا سارا الزام انکے اپنے سر ہے۔ یہ ادراک ہوتے ہوئے کہ انکے بھائی صاحب اپنے بیانئے میں درست نہیں ہیں انہوں نے ممکنہ پارٹی صدارت اور پھر وزیر اعظم کے عہدے کے لالچ میں جو رویہ اختیار کیا اس نے نوازشریف کے بیانئے کو اس نہج تک پہنچنے میں مدد کی۔ اگر پہلے دن سے وہ اسی طرح بات کرتے جس طرح اب وہ نواز شریف سے کر رہے ہیں تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔میرے خیال میں میاں نواز شریف اب کوئی راز افشاء کریں یا نہ کریں انہوں نے اپنی جماعت کو اس قدر نقصان پہنچا دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے آئندہ انتخابات جیتنا تو دور کی بات امیدوار ڈھونڈنے میں بھی بہت دقت ہو گی۔انکے بیان نے شہباز شریف کی پوزیشن بھی اس قدرکمزور کر دی ہے کہ وہ اگر با اختیار پارٹی صدر بن جائیں پھر بھی انکے جو ارکان دوسری جماعتوں کو پیارے ہو رہے ہیں ان کو نہیں روک پائیں گے۔ اس صورتحال میںکون مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کا متمنی ہوگا؟