م ،الف

 

ْمحققین نے کہا ہے کہ وہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی ایسے لوگوں کی بالکل درست نشاندہی کرسکتے ہیں جن کو آگے چل کر الزائمر کی بیماری ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں دوائوں کے تجربات میں پیش رفت میں مدد مل سکتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سائنس دان اس قابل ہوگئے ہیں کہ خون میں موجود پروٹین کی سطح کو استعمال کرکے یہ پیشگوئی کرسکیں کہ یہ دماغ میں جمع ہوجائے گا ۔

یوکے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج خوش آئند ہیں اور الزائمر کی تشخیص کے لیے قابل بھروسہ بلڈ ٹیسٹ کی جانب ایک قدم ہیں جس سے خلل دماغ کی بیماری یعنی ڈیمنشیا کی تحقیق میں تیز ی آسکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے پہلے بڑی سٹڈیز کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق الزائمر ، ڈیمنشیا کا باعث بننے والا سب سے عام سبب ہے جس کے صرف یوکے میں پانچ لاکھ بیس ہزار مریض ہیں جبکہ دنیا میں ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس وقت یہ بیماری لاعلاج ہے۔

رپورٹ کے مطابق الزائمر سے مخصوص یادداشت سے محرومی اور کنفیوژن پیدا ہونے سے بیس سال قبل دماغ میں ضرر رساں پروٹین کے گولے جمع ہونے لگتے ہیں۔لیکن اس وقت الزائمر کے لیے جو واحد ٹیسٹ ہے وہ پوسیٹرون ایمشن ٹوموگرافی (Pet) ہے جو بہت مہنگا اور بہت زیادہ وقت لینے والا سکین ہے۔

 رپورٹ کے مطابق الزائمر کے مریضوں کے دماغ میں ایمی لوئڈ بیٹا نامی پروٹین جمع ہوسکتا ہے ۔

سینٹ لوئیس میزوری میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے محققین نے جریدے نیورولوجی میں لکھا کہ انہوں نے پچاس سال کی عمر سے زائد ایک سو اٹھاون افراد کے خون میں پروٹین ایمی لوئیڈ بیٹا کی سطح کی پیمائش کی تاکہ اس کا تقابل دماغ کے سکین میں اس کی سطح سے کیا جاسکے۔تاہم اس سے جو نتائج ملے وہ مکمل طورپر درست نہیں تھے یعنی یہ اٹھاسی فیصد درست تھے۔

محققین نے جب ان نتائج کو دو دیگر رسک فیکٹر یعنی 65سال سے زائد عمر اور ایک جینیاتی ویری اینٹ APOE4 جو کہ بیماری کے رسک کو تگنا کرسکتا ہے ، کے ساتھ نتھی کیا تو بلڈ ٹیسٹ کے نتائج کی درستگی چورانوے فیصد پر چلی گئی۔

سٹڈی کے سینئر مصنف اور پروفیسر آف نیورولوجی رینڈل جے بیٹ مین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ مہنگے دماغی سکین کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم طبی تجربات کے لیے شرکاء کو زیادہ موثر انداز میں شامل کرسکتے ہیں جس سے ہمیں تیزی سے علاج ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے ساتھ علاج کی لاگت میں بھی بہت بڑی کمی ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی انسانی تکلیف میں بھی کمی آسکتی ہے۔