یہی دن تھے ، پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ کے کمرے میں ایک شخص کی آمد ہوئی۔ خندہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کیا گیا ۔ آنے والے کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ نمایاں تھی ۔ استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے مجھ سے تعارف کروایا۔ ’’یہ ہمارے دوست عبدالغفار عزیز ہیں۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق ہے ۔ بہت پڑھے لکھے اور عربی زبان کے سکالر ہیں‘‘۔ اس تعارف کے دوران بھی مسکراہٹ ان کے چہرے پر گہری ہو گئی تھی۔ پھر معلوم ہُوا کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں استاد محترم سے ملنے آئے تھے ۔ انہوں نے مختصر گفتگو میں مدعا بیان کیا ۔ اس سے اندازہ ہُوا کہ وہ کم گو ہیں۔ جس مقصد کے لئے وہ آئے تھے ، اس کی کارروائی مکمل ہو گئی تو وہ چند منٹو ں بعد واپس چلے گئے ،مسکراہٹ ان کے چہرے پر رخصت ہوتے ہوئے بھی پھیلی ہوئی تھی ۔ یہ ملاقات مختصر تھی لیکن میرے ذہن پر نقش ہو گئی ۔ جب اور جہاں کہیں اُن کا ذکر ہوتا ، میرے سامنے ان کا مسکراتا ہُوا چہر ہ آجاتا ۔ ان کا ذکر جب ہُوا ، ان کی شرافت ،علمی بصیرت اور مقبولیت کا ذکر ہُوا کرتا تھا ۔ یہی اوصاف تھے، جن سے مَیں عبدالغفار عزیز کی شخصیت سے متاثر رہا ۔ گزشتہ دنوں یہ شخصیت اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اللہ کے نیک بندوں کی یہی نشانی ہوتی ہے۔ دیگر بہت سے لوگوں کی طرح میرے دل نے ان کی جدائی کے صدمے کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ عبدالغفار عزیز کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا جو دنیاوی مال و دولت اور خوشحالی سے مالا مال تھا ۔ دوران تعلیم وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور پھر جماعت اسلامی میں خدمات انجام دینے لگے۔ تعلیمات کے حوالے سے انہوں نے تفسیر قرآن میں گہری دلچسپی لی، وہ قرآن و سنت پر عمل کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ انہیں عربی پر عبور حاصل تھا ، اس کے ساتھ ہی ترکی، چینی ، انگریزی سمیت دیگر زبانیں بھی آتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے قائدین نے اُنہیں امور خارجہ کے شعبے میں زیادہ کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ نائب امیر امور خارجہ مقرر ہوئے بعد ازاں انہیں اس شعبے کا ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ۔ یہ ان کی جدوجہد اور خدمات کا نتیجہ تھا کہ چند برسوں میں جماعت اسلامی خارجہ امور کے حوالے سے نہ صرف بہت زیادہ فعال ہوئی بلکہ دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں سے وابستہ ہوئی اور گہرے تعلقات قائم ہوئے ۔ انہوں نے ہر جگہ جماعت اسلامی کی بھرپور اور کامیاب نمائندگی کی۔ اس کام میں انہیں اس لئے زیادہ مدد ملی کہ انہوں نے دوران تعلیم عرب ملکوں کے بعض معیاری تعلیمی اداروں میں وقت گزارا۔ عربی زبان پر عبور حاصل ہونے سے انہیں عالم اسلام کے مسائل اور اسلامی تحریکوں کے مقاصد پر گہری نظر رکھنے کا موقع ملا۔ اپنی تقاریر اور مضامین سے انہوں نے مقبولیت حاصل کی اور گہرے روابط قائم کئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُنہیں اپنی علمی اور فکری سطح کے ذریعے نمایاں مقام حاصل ہُوا۔ اسی نمایاں مقام پر انہوں نے جماعت اسلامی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ پہلے اُنہیں کینسر کے موذی مرض کی شکایت ہوئی ۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اپنی سر گرمیاں جاری رکھیں۔ ان کے عزم صمیم اور حوصلے کا اسی بات سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تک کینسر نے انہیں پوری طرح اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا ، وہ امور خارجہ کے شعبے کے لئے کام کرتے رہے۔ دراصل جماعت اسلامی کا امور خارجہ کا شعبہ پہلے ایک نمایاں علمی شخصیت خلیل حامدی کی سربراہی میں کام کر رہا تھا ۔ جناب خلیل حامدی ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے تو اُن کے بعد امور خارجہ کا شعبہ سنبھالنے کا مسئلہ درپیش ہُوا۔ اس چیلنج کو عبدالغفار عزیز نے قبول کیا اور پھر اس کام میں اس قدر منہمک ہو گئے کہ انہوں نے صحت کی بھی پروا نہیں کی ۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد (مرحوم)نے اُنہیں بھرپور طریقے سے خدمات انجام دینے کے مواقع فراہم کئے بعدازاں سید منور حسین (مرحوم)کے دَور میں بھی وہ اسی رفتار سے سر گرم رہے لیکن کینسر کی وجہ سے ان کی رفتار دھیمی ہونے لگی ایک سال قبل وہ بے بس ہو گئے لیکن وہ مطمئن تھے کہ ان کی خدمات کے بہت اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اپنی عیادت کے لئے آنے والوں کو وہ اسی مخصوص مسکراہٹ سے ملتے رہے۔ گزشتہ ہفتے وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ یوں ایک یاد گار مسکراہٹ کا سفر تمام ہُوا۔ ان کے انتقال کو جماعت اور اسلامی تحریکوں کے لئے بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا ۔ بلاشبہ ہم ایک اہم اور بے لوث اہم مذہبی اور سماجی شخصیت سے محروم ہو گئے ، یہ شخصیت عمر بھر ایک عظیم مقصد کے لئے جدوجہد کرتی رہی ۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کر کے ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند فرمائیں ۔ آمین۔