لوگ بوند بوند پانی کو ترستے ہیں۔کہیں تین تین ماہ سے نلکے میں پانی نہیں آرہا۔ کہیں تین چار سال سے کہیں دس سال سے نہیں آرہا۔ پائپ لائن میں پانی نہیں لیکن ٹینکرز کیلیے دستیاب ہے، غریب لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر کھارا پانی بھی ٹینکروں سے خریدتے ہیں۔ پینے کے پانی کا ڈبہ تیس، چالیس روپے میں بک رہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں جو پانی نلکوں میں آتا ہے وہ گندگی ملا ہے جس سے تعفن اٹھتا ہے ۔ اسی سے لوگ نہاتے ہیں‘ وضو کرتے ہیں‘ مردے نہلاتے ہیں۔ کئی غریب علاقوں میں عورتیں دو دو ماہ سے نہیں نہائیں۔ یہ کراچی ہے جہاں العطش العطش کی صدائیں بلند ہیں۔ کبھی پی آئی بی کالونی میں متاثرین کا مظاہرہ‘ کبھی نارتھ ناظم آباد میں۔ کبھی بلدیہ ٹاون میں۔ جگہ جگہ لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ جلوس نکال رہے ہیں کہ انہیں پانی دیا جائے۔لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بعض جگہوں پر مشتعل ہجوم پمپنگ اسٹیشنز کے عملہ کو بھگاکر ان کا کنٹرول خود سنبھال رہے ہیںکہ پانی کا رخ اپنے علاقوں کی طرف موڑ سکیں۔کچھ علاقوں میں لوگ دو سو سے پانچ سو فٹ نیچے زیرزمین بورکرواکر پانی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کھارا پانی سہی۔ پینے کیلیے نہیں تو ٹائلٹ کے استعمال تو آجاتا ہے۔ پانی کی خاطر زمین کے نیچے سخت چٹان کو توڑا جارہا ہے جس کے نقصانات آنے والے دنوں میں ظاہر ہونگے۔ ایم کیو ایم کے مئیر کہتے ہیں کہ پانی فراہم کرنے کا ذمہ دار ادارہ واٹر بورڈ صوبائی حکومت کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ شہر کے جن علاقوں سے پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں ملے وہاں پانی فراہم نہیں کیا جارہا۔ صرف ان علاقوں کی پائپ لائن میں پانی آرہا ہے جہاں سے اسکے امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے شکست خوردہ امیدوار یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دے رہے۔ دوسری طرف‘ پیپلز پارٹی الزام لگاتی ہے کہ پانی کے مسئلہ کی اصل ذمہ دار ایم کیو ایم ہے۔ واٹر بورڈ ایم کیو ایم کے حامی ملازمین سے بھرا ہوا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کیلیے جان بوجھ کر مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ الزام در الزام۔ پوائنٹ اسکورنگ۔ عوام کے انتہائی اہم مسئلہ کو حل کرنے کیلیے مخالف سیاسی جماعتیں تعاون کیلیے تیار نہیں۔ وفاق میں میثاق جموریت‘ میثاق معیشت کیلیے تیار ہیں۔ کراچی دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے جنکے پاس میٹھے پانی کا اپنا منبع نہیں۔ نہ دریا‘ نہ جھیل‘ نہ زیر زمین۔ پانی دور دراز علاقوں سے بڑے پائپوں کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ پانی کی قلت تو شہر کی ساخت میں شامل ہے۔ پانی کی رسد ہمیشہ اس پھیلتے بڑھتے صنعتی‘ تجارتی شہر کیلیے محدود ہی رہے گی۔ سمندر کے کھارے پانی کو صاف کرکے استعمال کے قابل بنانا بڑا مہنگا کام ہے۔ اسلیے کراچی کو قریب میں واقع حب ڈیم سے پانی دیا گیا۔ یہ ڈیم بارش کے پانی سے کبھی پورا بھر جاتا ہے اور کبھی کم۔ حب ڈیم زیادہ سے زیادہ دس کروڑ گیلن پانی فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن شہر کی دو کروڑ سے زیادہ آبادی کو 110 کروڑ گیلن پانی درکارہے۔ شہر کی اصل ضرورت دریائے سندھ پوری کرتا ہے۔ جو پانی کی فراہمی کا ایک قابل اعتماد منبع ہے۔ پچپن ( 55 )کروڑ گیلن پانی دریائے سندھ سے کینجھر جھیل کے راستے کراچی پہنچایا جاتا ہے لیکن اس جھیل میں بھل صفائی کیے مدت گزر گئی۔ اسکی استعداد کم ہوگئی ہے۔ اسوقت شہر کو جتنا پانی چاہیے اسکا نصف میسر ہے۔ دریائے سندھ سے مزید 28 کروڑ گیلن پانی شہر کو فراہم کرنے کا ایک منصوبہ تیرہ برس پہلے تیار کیا گیا لیکن شروع نہیں کیا جاگیا۔ جس شہر سے سندھ کو پچانوے فیصد آمدن ہوتی ہے اسکو صوبائی حکومت اپنا کچھ پانی دینے پر آمادہ نہیں۔ اسکے لیے ترقیاتی فنڈز رکھنے کو تیار نہیں۔ جس شہر میں پورے ملک سے لوگ روزگار کمانے آتے چلے جاتے ہیں اسکو دینے کے لیے پورے ملک کے پاس پانی نہیں! بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ شہر میں پائپ لائنیں پھٹ جائیں تو کئی کئی دن مرمت نہیںکی جاتیں۔ پمپنگ اسٹیشنز پر بجلی چلی جاتی ہے تو پانی کی سپلائی بند ہوجاتی ہے۔ جنریٹرز یا تو موجود نہیں یا خراب رہتے ہیں۔ ایک دفعہ بجلی جانے سے پمپنگ اسٹیشن بند ہوجائے تو پائپ لائن میں دوبارہ پانی چڑھانے میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر 28 میگا واٹ کا بڑا جنریٹر بجلی کی مسلسل رسد کو یقینی بناسکتا ہے۔ جب وہاں بجلی چلی جائے تو پائپ لائن میں پانی بحال کرنے میں چار دن لگتے ہیںکیونکہ ارضی ساخت ایسی ہے۔ اس دوران میں پانی کے ترسے ہوئے لوگ چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں۔ اپنی بے بسی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ لاہور میں اورنج ٹرین کیلیے تقریبا ایک سو میگا واٹ کا الگ پاور اسٹیشن بن سکتا ہے تو کراچی میں پانی جیسے بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر جنریٹر کیوں نہیں لگایا جاسکتا؟ چار سُو وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی کرپشن نے ہر مسئلہ کو گھمبیر‘ پیچیدہ اور لاینحل بنادیا ہے۔ جو پانی میسر ہے اس کا چالیس فیصد یا تو چوری کرلیا جاتا ہے یا لیکج کے ذریعے ضائع ہوجاتا ہے۔ ہر سال سینکڑوں ارب کا پانی چوری کرکے بیچا جاتا ہے۔ صرف شہر کے جنوبی علاقوں میں ٹینکرز مافیا 70 ارب روپے سالانہ کا پانی بیچتا ہے۔ شہر کے قرب و جوار جیسے دھابیجی میں بڑے بڑے مگرمچھوں نے زرعی فارمز بنالیے ہیں۔ راستے میں پانی چوری کرکے ان فارمز کو دے دیا جاتا ہے جبکہ شہر میں لوگ قطرے قطرے کو ترستے ہیں۔ کھارے پانی سے نہا نہا کر ان کے جسم خارش زدہ ہوچکے۔ اسی لیے کسی بھی جگہ بڑی یا چھوٹی پائپ لائنوں پر پانی کے میٹرز نہیں لگائے جاتے تاکہ کوئی حساب کتاب ہی نہ رہے کہ کتنا پانی سپلائی ہوا اورکہاں گیا۔ پانی کی منصفانہ تقسیم ہوگی تو اربوں کا دھندہ کیسے چلے گا؟ اس چوری کو روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ بڑے با اثر لوگ ہیں۔ مافیاز ہیں۔ ان کے نمائندے ہر ادارے‘ ہر حکومت میں موجود ہیں۔ نہ صوبائی حکومت‘ نہ وفاقی حکومت۔ نہ پولیس‘ نہ رینجرز۔ کراچی کے پانی پر انہی مافیاز کی اصل حکمرانی ہے۔