آج سے ٹھیک تیس سال قبل گیارہ اگست 1988ء کو پشاور کے ایک مکان میں اسامہ بن لادن نے اپنے چند ہم خیال افراد کو جمع کیا اور عالمی استعمار کے خلاف ایک جہادی گروپ القاعدہ کی بنیاد رکھی۔ القاعدہ عربی میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں مجلس کے بیٹھنے کی جگہ اور کسی گروہ کے بنیادی ہیڈ کوارٹر تک شامل ہیں۔ یہ تنظیم پاکستان کے شہر پشاور میں اس وقت وجود میں آئی جب روس اپنا بوریا بستر سمیٹ کر افغانستان سے جا رہا تھا اور علاقے میں ایک فتح کی کیفیت برپا تھی۔ ایسے میں امریکہ سے اعلان جنگ ایک حیران کن بات تھی وہ امریکہ جس نے افغانستان کی جنگ میں مجاہدین کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔ یوں تو اس تنظیم کا جنم پشاور میں ہوا لیکن مدتوں پاکستان کا میڈیا‘ انتظامی حلقے یہاں تک کہ جہادی گروہ بھی اس سے بہت کم واقف تھے۔ مجاہدین کا نام آتا تو حکمت یار‘ احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی اور دیگر افغان تنظیموں کے سربراہوں کا ذکر چل نکلتا۔ عرب جنگجوئوں کا ذکر تو ہوتا لیکن عمومی طور پر لوگ ان کے نام سے واقف نہ ہوتے۔ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے زیر زمین اسٹیشن میں جو بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس میں رمزی یوسف کا نام آیا تو 1993ء میں پہلی دفعہ القاعدہ خالد شیخ محمد اور افغانستان میں ان کے ٹریننگ سینٹروں کا ذکر مغربی پریس میں ہونے لگا۔ اپنے قیام کے ٹھیک دل سال بعد 7اگست 1998ء کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر شدت پسند حملوں کے بعد القاعدہ کا نام پوری دنیا میں گونجنے لگا۔ اس کے دو سال بعد 2000ء میں یمن کے ساحلوں پر امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنا کر 17امریکی سپاہیوں کو ہلاک کرنے کے بعد مغربی پریس میں ہر برائی‘شدت پسندی اور دہشت گردی کا منبع و ماخذ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو قرار دیا جانے لگا۔ اس کے بعد سانحہ گیارہ ستمبر2001ئ، افغانستان پر اتحادی افواج کی چڑھائی‘ تورا بورہ، طالبان حکومت کا خاتمہ‘ افغان حکومت کا امریکی پشت پناہی سے قیام‘ پاکستان کی امریکی وحشت و بربریت میں اس حد تک مدد کہ تین ہوائی اڈوں سے ستاون ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے پرواز کی۔ افغان مجاہدین کے ٹھکانوں پر حملے کئے اور سب سے اہم بات یہ کہ ساڑھے چار سو کے قریب غیر ملکی مجاہدین کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا، ان میں سے اکثریت عرب ممالک سے تعلق رکھتی تھی اور القاعدہ سے منسلک سمجھی جاتی تھی۔ مدتوں ان لوگوں کو گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں رکھا گیا۔ افغان حکومت کے قیام‘ عراق میں فتح اور آخر کار اسامہ بن لادن کی شہادت کے بعد پوری دنیا کو یہ خوشخبری سنا دی گئی کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے اور اب القاعدہ کا وجود ختم ہو گیا ہے۔ راوی اب چین لکھتا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق کے پہاڑوں میدانوں اور صحرائوں میں عالمی دہشت گردی کے نتیجے میں لگنے والی آگ اور دم گھونٹنے والے تلخ دھوئیں سے بغاوت کی چنگاریاں سلگتی رہیں۔ افغانستان میں چونکہ پانچ سال طالبان کی حکومت رہی، اس لیے وہاں مجاہدین کا نیٹ ورک موجود تھا جو ایک حکمت عملی کے تحت خاموش رہے‘ پھر آہستہ آہستہ پہلے دورو دراز علاقوں میں منظم ہونے لگے اور اب وہ افغانستان میں ایک ایسی طاقت ہیں کہ جس کے سامنے امریکی سپر پاور اور اس کی تیار کردہ افغان فوج بھی بے بس ہے۔ لیکن عراق میں صدام حکومت کی وجہ سے زیر عتاب دو گروہ تھے ایک شیعہ اور دوسرے کرد‘ دونوں نے امریکی یلغار کو اپنے لیے ایک نعمت سمجھا اور خاموش ہو گئے۔ مزاحمت سنی علاقوں سے ہوتی رہی اور بار بار ان علاقوں پر حملے‘ آپریشن یہاں تک کہ نسل کشی جیسے اقدامات بھی کئے جاتے رہے۔ امریکہ جب 2003ء میں عراق میں داخل ہوا تو القاعدہ نے بھی اپنا گروہ ابو مصعب زرقاوی کی سربراہی میں منظم کیا لیکن جلد زرقاوی کے اسامہ بن لادن سے اس بنیاد پر اختلافات پیدا ہوئے کہ زرقاوی پہلے عراق کی شیعہ آبادی کو نشانہ بنانا چاہتا تھا اس نے اپنا گروہ الگ کر لیا۔2006ء میں اس کی ہلاکت کے بعد گروہ منظم رہا اور جنگ کرتا رہا اپنی فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے سنی علاقوں کے عوام نے شروع شروع میں ان کا ساتھ دیا اور وہیں سے 2014ء میں ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے نام سے تنظیم سامنے آئی جس نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ چونکہ ان کا نظریہ فرقہ وارانہ تھا۔ اس لیے اس گروہ کو کھلی چھٹی دی گئی جس شہر کو فتح کرتے‘ عراق اور شام کی حکومتیں اپنا اسلحہ ٹینک اور دیگر مہنگا سازو سامان چھوڑ کر فرار ہو جاتے تاکہ ان کے کام آئے۔ تیل کے کنوئیں ان کے قبضے میں آئے تو ان سے سستے داموں تیل خریدنے کے لیے کرد اور ایرانی تاجر سرحدوں پر جا بیٹھے۔ وہ تیل خریدتے اور دولت اسلامیہ اس سے اسلحہ حاصل کرتی۔ دنیا بھر کے جنگجو جہاد کے خواہاں وہاں پہنچنے لگے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اس گروہ کی طاقت توڑی جائے اور اسے بکھیر کر دوسری جگہوں پر استعمال کیا جائے۔دولت اسلامیہ جسے مخالفین عرف عام میں داعش کہتے ہیں‘ القاعدہ سے مختلف تھی‘وہ ایک ریاست کے قیام کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور جلد نشانہ بن گئے جبکہ القاعدہ سمجھتی تھی کہ اس طرح آپ ان طاقتوں کی نظروں میں آ جائو گے اور وہ آپ کو آسانی سے تباہ کر دیں گی۔ جبکہ گوریلا جنگ بڑی سے بڑی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ روس‘ امریکہ‘ عراق‘شام‘ ایران‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ قطر سب کے سب متحد ہوئے اور داعش کا خاتمہ کر دیا گیا۔ جو بچے تھے ان کو اپنے مقاصد کے استعمال کے لیے خصوصی اہتمام کے ساتھ افغانستان اور افریقی ممالک میں بھیج دیا گیا۔ افغانستان میں بھیجنے کا مقصد طالبان کی اس تحریک کو نقصان پہنچانا تھا جو افغانستان کی آزادی کے لیے تھی۔ عالمی خلافت کا کھوکھلا اور بے بنیاد نعرہ دے کر انہیں مجاہدین کو توڑنے کا نام دیا گیا۔ گزشتہ ہفتے غزنی کی فتح سے پہلے طالبان نے اس حکومتی ایما پر بنائی گئی داعش کے خلاف صوبہ جوزجان میں حملہ کیا جو 24دن تک جاری رہا۔ جس میں داعش کے 92افراد ہلاک اور 51زخمی ہوئے جبکہ 128افراد کو طالبان نے گرفتار کر لیا۔ اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ افغان سپاہیوں کو حکومت بچانے کے لیے نہ آئی لیکن درزاب کے علاقے میں پھنسے ہوئے داعش کے سپاہیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے طالبان کے محاصرے سے نکالا گیا۔ ٹھیک سترہ سال بعد القاعدہ اس وقت دنیا میں پھر سے منظم ہو چکی ہے اور اس دفعہ اس کے اہداف بہت واضح ہیں۔ اقوام متحدہ نے القاعدہ کے بارے میں ایک مانیٹرنگ ٹیم مقرر کر رکھی ہے جس میں ہر چھ ماہ کے بعد رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ اس کی رپورٹ نمبر 22کے مطابق داعش کی تباہی کے بعد القاعدہ دوبارہ منظم ہو چکی ہے اور اس کے جنگجو افغانستان کے علاقوں نغمان‘پکتیکا‘ قندھار ‘ غزنی اور زابل میں موجود ہیں۔ ان کا طالبان کے ساتھ ایک شاندار تعلق بن چکا ہے ان کے مقابلے میں تین ہزار داعش کے جنگجوئوں کو آباد کیا گیا مگر شمالی افغانستان سے ان کا القاعدہ نے طالبان سے مل کر صفایا کر دیا۔ رپورٹ نے ایک خطرے کی نشاندہی کی ہے کہ القاعدہ اس ریجن میں اب نظریاتی طور پر ایک ہی ملک کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور وہ بھارت ہے۔آسام سے لے کر کشمیر تک وہ منظم ہو چکی ہے اور تئیس کروڑ مسلمان آبادی کے بھارت کے لیے بہت زیادہ مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی شدت پسندوں کے ہاتھوں تنگ ہے‘ معاشی طور پر پسماندہ ہے‘ سیاسی طور پر کچلی ہوئی اور شدید احساس محرومی کا شکار ہے۔ اس نے القاعدہ کے لیے افزائشی ماحول (Breeding ground)فراہم کیا ہے اس لیے اگر افغانستان میں طالبان مرضی کا امن قائم نہ ہو سکا تو اگلا نشانہ میدان جنگ اور تباہی کا منظر نامہ بھارت میں رکھا جائے گا۔ بلکہ اس کے خوف نے ابھی سے بھارت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔