جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے اپنی حالت پہ مجھے خود بھی ہنسی آتی ہے جو بھی آتا ہے مجھے اور رلا جاتا ہے کیا کیا جائے زمانہ سیدھا چلنے ہی نہیں دیتا اور یہ یقینا الٹا چلنے والوں کے باعث ہے۔ وہی بقول حسن نثار الٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا کبھی کبھی میں اپنی سیاست کے لوٹوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی چلا جاتا ہوں کہ ان کا تو قصور یقینا ہے کہ جن کے اندر وہ خمیر موجود ہے کہ وہ ہر رنگ میں ڈھل جاتے ہیں مگر ان کو بھی تو پوچھنا چاہیے جو ان لوٹوں کو استعمال کرتے ہیں یہ الیکٹی بلز بھی انہی میں ہیں کوئی بات تو پردے میں ہے اور نوگو ایریا کہیں ضروری ہے پتلیوں کو نچانے والے ہاتھ ظاہر بھی ہو جائیں تو کیا ؟ کھیل تو کھیل ہے سب جانتے ہیں حالات کا جبر ہے یا کیا ہے!! کھیل تو کھیل ہے ، حدودمتعین کون کرتا ہے؟ یقینا طاقتور لومڑی نے بھی بندر کا حشر دیکھ کر شیر کا حق تسلیم کیا تھا شیر تو شیر بانٹنے کے لئے اگر بندر بھی بیٹھا ہو تو وہ بلیوں کے پلے کچھ نہیں ڈالتا۔ میرے معزز قارئین آپ پریشان نہ ہوں بس ایسے ہی فضول سا خیال ذہن میں آگیا بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں ایک شعر کچھ زیادہ ہی وائرل ہو گیا وجہ خدا جانے: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آ گے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں چلیے چھوڑیے مجھے تو ایک نہایت دلچسپ بیان پر بات کرنی ہے کہ آپ بھی جی بھر کر لطف اٹھائیں اور لوٹ پوٹ ہو جائیں کہ کہا گیا ہے کہ نئے پاکستان میں منفی سیاست کی گنجائش نہیں ہے جی نیا پاکستان جس میں لوگ دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدا کے لئے انہیں ان کا پرانا پاکستان واپس کر دیا جائے جس میں غریب کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو میسر تھی بیماری میں دوائی مل جاتی تھی اور مرنے سے پیشتر بھی کچھ سکون مل جاتا تھا۔ شواہد تو یہی بتاتے ہیں کہ چلتی ہی منفی سیاست ہے بلکہ سیاست بذات خود یعنی نفس نفیس بھی کچھ اتنی مثبت شے نہیں۔ تبھی تو ابوالاکلام آزاد نے کہا تھا کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور کئی سیاستدانوں نے یہ بھی بتا دیا کہ اس کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی اور وفا کا تو کہنا ہی کیا ،سب مجبوریوں کے سودے ہیں ہر کام ہی ہم نفی سے شروع کرتے ہیں اپنی نفی نہیں بلکہ دوسرے کی، منیر سیفی ایسے ہی یاد آ گئے: یہ تو حالات مجھے لے آئے ہیں تیری جانب یہ ملاقات ملاقات نہ سمجھی جائے اچانک ہمارے رویوں کے حوالے سے بھی مجھے منیر سیفی کا شعر ذہن میں آ گیا اور یقین مانیے کہ یہ ایک تلخ سچائی ہے: منتظر ہوں میں اپنی باری کا اور کھڑا ہوں قطار سے باہر ایک اور بیان داغ دیا ہے کہ منفی سیاست سے استحکام ختم ہو جائے گا یہ بڑی مبہم سی بات ہے میں سوچتا ہوں کہ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں کھسک جانا اور حکمرانی کے مزے لینا کیا منفی سیاست ہے یا مثبت رویہ ،سیاست کی تعریف کے حوالے سے تو یہ بالکل درست ہے اور اس کے پیچھے مولانا فضل الرحمن کا زریں قول ہے کہ سیاستدان اقتدار کے لئے ہی سیاست کرتا ہے۔ پارٹیاں بدل کر حکمران ٹولے میں آ ملنا تو سیاست ہوئی اور آپ اسے مثبت عمل بھی کہہ لیں مگر آپ جو کام پیچھے چھوڑ کر آئے یعنی جب آپ پچھلی جماعت میں تھے تو آپ ہر کام میں شریک تھے اور اب اپنی چھوڑی ہوئی پوزیشن کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ۔ آپ کی بات درست مگر وہی کام آپ کریں گے تو فرق کیا رہ گیا : تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے ہو یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہو تا کچھ خدا کا خوف کرو کچھ تو سوچو آپ کے بیان میں کیا رتی برابر بھی حقیقت ہے کہ یہ دور تاریخ کا سب سے اعلیٰ دور ہے جس میں آپ کہیں کہ تاریخ میں سب سے زیادہ سہولتیں اس دور میں عوام کو ملیں۔ بات میں کچھ تو وزن ہو جبکہ بیان دینے والی شخصیت خاصی وزنی ہے مزے مزے کا ایک اور بیان دیکھیں کہا گیا پی ڈی ایم کا اتحاد ہی غیر فطری ہے اور اب پی ڈی ایم کے اتحاد کا جنازہ مولانا فضل الرحمن پڑھائیں گے۔ غیر فطری اتحاد کی بات یقینا درست ہے مگر یہ بھی تو غلط نہیں کہ ایسا ہی اتحاد پی ٹی آئی اور متحدہ کا ہے بلکہ ق لیگ کے ساتھ بھی کوئی جائز اتحاد نہیں۔ وہ سب سے بڑے ڈاکو اور اب تو وہ بلیک میلر بھی بن گئے اور بلیک میل آپ ہو گئے نیب کے سر سہرا سجا۔ پھر ہماری ناقص عقل میں این آر او کا مفہوم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے سیاست میں بھی معاشقہ کی سی صورت ہو: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے میرے پیارے قارئین میں آپ کو اداس کر دیتا ہوں مگر خواہش تو میری یہ ہوتی ہے کہ ہمیں مسرت ملے اور ملک و قوم کو خوشحالی نصیب ہو۔ قدرت نے تو ہمیں بدل بدل کر موسم دیے اب بھی بہار دور نہیں ہے ،سردی کم ہو رہی ہے سورج چمکنے لگا ہے اور دھند چھٹ گئی ہے ابھی اقتدار جاوید صاحب نے محبوب خزاں کا ایک شعر بھیجا تو مزہ آ گیا: ریشم اچھالتی ہوئی روشن سنہری شام دریا میں ڈوبتی ہوئی دریا سے گہری شام مجھے محبوب خزاں کا حوالہ شعر بھی یا د آ گیا: ایک محبت کافی ہے باقی عمر اضافی ہے میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ گھبرانا نہیں کہ جب بار بار آپ کو بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہوں اور پٹرول کو آگ دکھائی جا رہی ہو اور آپ کو آٹے گھی کا بھائو معلوم ہو جائے تو آپ کیوں پریشان نہ ہونگے ۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ امید نہیں چھوڑنی شاید وہ وقت آ جائے کہ کسی کو آپ منتخب کر لیں اور وہ نجات دہندہ بن جائے میں خان صاحب جیسی بات بھی نہیں کر سکتا کہ انقلاب کا آغاز تو ہو چکا۔ویسے تو انقلاب کے معنی الٹانا بھی ہوتا ہے اس حوالے سے تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا اگر یہ آغاز ہے تو اللہ کم از کمانجام سے بچا لے۔ آمین۔