اس دنیائے فانی میں مومنوں کی دو مائیں ہیں ایک وہ جنہوں نے اپنے بطن سے بچہ کو جنم دیا دوسری وہ جن کی رفت ورأفت سے عالم کی بقا ہے ،جن کی حرمت وتقدس کے ترانے ،عصمت کی تائید وتوثیق قادر مطلق بیان فرماتا ہے ۔یہ ایک بدیہی اَمر ہے کہ ماں تو بہرحال ماں ہے اپنی اولاد کا اس سے نکاح ہر حال حرام ہے ‘ قدسی بھی گارہے ہیں یہ مائیں جو اِن ماؤں سے کئی گنا زیادہ صاحب تقدس ہیں ان سے بھی نکاح امتی حرام ہے ،امہات المومنین کی مبارک فہرست میں سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اہم ترین خصوصیات کی جامع ہیں،آپ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہزادی تھیں،آپ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے صاحب تہذیب التہذیب نے لکھا ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے ۵سال پہلے ہوئی۔آپ کی پہلی شادی خنیس بن حذافہ سے ہوئی،جو غزوہ بدر میں شریک رہے بعض نے کہا ہے کہ غزوہ بدر کے بعد بعض نے غزوہ احد کے بعد آپ کی رحلت ہوئی ہے ۔اس کے بعد آپ کا نکاح مختار ِکائنات حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ۳ھ میں ہوا۔آپ بہت ہی شان دار بلند ہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ میراغابہ کا تمام مال صدقہ کردینا،حاضر جوابی اور فہم وفراست میں اپنی والدہ بزرگ وار کا مزاج پایاتھا،آپ ہمیشہ طول القیام اورصائم الدہررہیں،آپ کی چند خصوصیات عدیم المثال ہیں مثلاً:اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ خطاب فرمایا،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ ہی کو راز بتایا تھا کہ میرے بعد خلیفہ حضرت صدیق اکبر اور ان کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہما ہوں گے ۔وصال کے وقت بھی آپ روزے سے تھیں اور آپ کے خاندان کے کثیر افراد نے غزوہ بدر میں شرکت کی۔ تفسیر وتاویلاتِ قرآن اور دیگر عبادات میں آپ ہمہ وقت مصروف رہا کرتی تھیں،مزاج میں کچھ سختی تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اسی فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی سخت کلامی سے حضور خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری نہ ہوجائے چنانچہ بار بار آپ سمجھاتے ‘اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لینا،خبردار!خبردار! حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کبھی بھی ہرگز ہرگز دل آزاری نہ کرنا۔ مقام غور ہے جو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرفِ زوجیت سے سرفراز ہوں ان کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کس قدر تاکید ات سے آگاہ فرما رہے ہیں،اور آج کا جائزہ لیں کہ ہم کس سٹیج پر کھڑے ہیں!کیا ناموس رسالت کا تحفظ،عصمت انبیاء علیہم السلام کی حفاظت،ختم نبوت کی پہرہ داری سے ہم سبک دوش ہوگئے اگر ہاں تو ایسی حیات پر لعنت اور نہیں تو اٹھیے اور صلاح الدین کی تاریخ کو دہرائیے پھر غازیان اسلام آئیں گے ! سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا جو عالم ماکان وما یکوں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم راز تھیں‘ حدیث و فقہ میں اتنا ممتاز درجہ رکھتی تھیں کہ تاریخ مثال دینے سے قاصر ہے ،انہوں نے 60احادیث مبارکہ کی روایت کی جن میں5احادیث بخاری شریف اور باقی دیگر کتب حدیث میں مندرج ہیں۔آپ سے چند مروی احادیث پیش خدمت ہیں :’’۱۔جب طلوع فجر ہوتی ہے تو دو رکعت خفیہ کے علاوہ نماز نہ پڑھتے ،۲۔میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وصال سے ایک یا دو سال پہلے تک کبھی بھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا،۳۔ابو ملیکہ سے فرماتے ہیں کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہاسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے ہو۔ اسی طرح علم حدیث میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین آپ کے شاگرد رہے ہیں جن میں خود آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت شہرت یافتہ ہیں۔ ۵۴ھ میں آپ کا وصال ہوا، مروان بن حکم اُس دور میں مدینہ منورہ کا حاکم تھا،اسی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازے کو کندھا دیا پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر تک کندھا دیا۔آپ کے دو بھائی حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ان کے تین بھتیجوں ’’حضرت سالم،عبداللہ،اور حضرت حمزہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اور یہ جنت البقیع میں دوسری ازواج مطہرات کے پہلوؤں میں مدفون ہوئیں،وصال کے وقت آپ کی عمر شریف تریسٹھ سال کی تھی۔ماحصل بہ کے طور پر یہ بات بلا تامل کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:۱۔ہم اپنی زندگی کو عشق نبویؐ میں ڈھال لیں تبھی عروج وارتقا اور عزت وعظمت کی بلندی پر پہنچ سکتے ہیں،۲۔آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے راضی ہوجائیں یہی زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہئے ‘ اس کے بغیر زندگی فضول ہے ،۳۔صدقات وخیرات کیلئے اپنا در ہمیشہ کھلا رکھنا چاہئے ، ۴۔اپنی صداقت پر یقین محکم ہونا چاہئے ،۶ ۔علوم قرآن وحدیث کو فقط تحفظ دین کیلئے حاصل کرکے زیادہ زیادہ عام وتام کریں،۷۔عصمت امہات المومنین رضی اللہ عنہاکے تحفظ میں ضرورت کے مطابق ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔ (مآخذ: مسند احمد بن حنبل ، زرقانی ، اسد الغابہ ،الاصابہ )