اگر کبھی مجھے کائنات کا مصور بہادری ، بے خوفی،ہمت ،حوصلہ ،کمٹمنٹ ،یقین ،جوش اور نظرئے سے رومانس کو مجسم کرنے کا اختیاردیتا تو میں سیدھا سری نگر کے حیدرپورہ میں سید علی گیلانی کے گھر پہنچ جاتا ،سید علی شاہ گیلانی سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی صرف ایک بار فون پر ہی بات ہوئی ہے اور وہ لمحے میری زندگی کا اثاثہ ہو گئے ،علی گیلانی چلتا پھرتا پاکستان تھے وہ ایک متحرک اور منزل سے پہلے ختم نہ ہونے والی کمٹمنٹ تھے ،ان کے نزدیک پاکستان ماں کی آغوش اور باپ کا وہ کاندھا تھا جس پر کوئی معصوم بچہ بیٹھ کر کلکاریاں مارتا ہے پاکستان ان کا ایسا عشق تھا جس پر میں حیران ہوتا تھا کہ کوئی شخص اس شدت کی چاہ بھی رکھ سکتا ہے ! میری صحافتی زندگی کا بڑا حصہ کرائم رپورٹر کی حیثیت سے گزرا ہے ،کرائم رپورٹر وں کے دل کٹی پھٹی لاشیں دیکھ دیکھ کر ویسے ہی کسی سرجن کی طرح سخت ہوچکے ہوتے ہیں اور میں تو پھر کراچی کا کرائم رپورٹر تھا کراچی کے دیگر کرائم رپورٹروں کی طرح میرا دل بھی کافی سخت ہوچکا ہے اشک آنکھوں سے فاصلے پر ہی رہتے ہیں لیکن جس روز علی گیلانی کے دنیا سے چلے جانے کی اطلاع ملی میں کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا مجھے ایسا لگا جیسے میرے خاندان کا بڑابزرگ چل بسا ہو ،ان کے جانے سے تحریک تکمیل پاکستان یتیم ہوگئی ۔ میں ہی نہیں دنیا ا س شخص کی جرت پر حیران ہوتی تھی،ایک ایسا ضعیف العمر شخص جس کی ہڈیوں کو بڑھاپے کا گھن لگ چکا ہو،دل بھی ان کی رفتار سے تھک کرپیس میکر کی مدد مانگے ،دو گردوں میں صرف آدھا گردہ کام کرتا ہو جس کے لئے آکسیجن کے بعد میڈیسن سب سے ضروری ہو اور ایسے بیمار ضعیف شخص کا گھر گیارہ برسوں سے سب جیل قرار دے کرانہیں قید کردیا جائے آپ اسے انسانیت سے عاری ظلم نہ کہیں گے توکیا کہیںگے ان کے ترجمان عبداللہ گیلانی انکی موت کو عدالتی قتل کہتے ہیں تو کیا غلط ہے ! کچھ ہی دن ہوئے کابل سے امریکی فوجیوں کے اڑان بھرنے کے بعد اس خبر نے بھی اڑان لی کہ امریکی فوجی جاتے جاتے کابل کے حامد کرزئی ائیرپورٹ پر دو سو کتے چھوڑ گئے ،اس خبر پر امریکی سوسائٹی نے جاندار ردعمل دیا ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے سوشل میڈیا پراحتجاجاً امریکی صدر بائیڈن کا نام اس طرح لکھا کہ نام کی ہجو میں ایک حرف کی جگہ کتے کا سرخ پنجہ رکھ دیاکتے کا یہ علامتی سرخ پنجہ دراصل بائیڈن پر کتوں کے خون کی فرد جرم تھی امریکی سوسائٹی میں جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم پیپل فار دا ایتھکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز نے اس پرفوراًََنوٹس لیاا ور اپنے خدشات امریکی جنرل کینیتھ میک کنری تک پہنچا دیئے کہ یہ کیا ماجرہ ہے کتے وہاں کیسے رہ گئے انکی زندگیاں خطرے میں ہیں انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا ٹرمپ جونیئر کے اس ٹوئٹ سے تینتالیس ہزار آٹھ سو امریکیوں نے اتفاق کیا اس سے پہلے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھرکے اکیلے ہاتھی کاون کے لئے امریکی سوسائٹی نے ایسی ہی منظم تحریک چلائی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس لینا پڑ ا ،کاون کو کولمبیا پہنچانے کے لئے ایک امریکی گلوکارہ نے باقاعدہ مہم چلائی پیسوں کا انتظام کیا اور دباؤ اتنا بڑھایاکہ کاون کو کولمبیا میں ہاتھیوں کی پناہ گاہ بھیجتے ہی بن پڑی میرے ذہن میں ایک ایک کرکے ایسے بہت سے واقعات یاد آرہے ہیں میں نے ان ’’مہذب ‘‘ معاشروں کو درختوںکو کلہاڑوںسے بچانے کے لئے احتجاج کرتے دیکھا ،ناپید ہوتے چرند پرند کے لئے سڑکوں پر آتے دیکھا جانورں کے حقوق کے لئے سمینار اور کانفرنسیں کرتے دیکھا لیکن افسوس کہ کشمیر کے حیدرہ پورہ کے بوڑھے بیمار علی گیلانی کے لئے کسی گلوکارہ ،اداکار ، موسیقار ،کھلاڑی اور انسانی حقوق کے علمبردار نے کوئی آواز نہ اٹھائی ،ان کے نزدیک کابل ائیر پورٹ پر رہ جانے والے دو سو کتوں کی زندگیاں اہم اور اسلام آباد کے پینتیس سالہ کاون ہاتھی کی قید تنہائی تو افسوس ناک ہے لیکن انکے نزدیک ایک بانوے برس کی بوڑھے بیمار انسان کی وقعت کم ہے،تف ہے ایسے مہذب معاشروں کی حساسیت اور اقدار پر۔ علی گیلانی پاکستان سے محبت اور وفاکا استعارہ تھے اور جب انہوں نے کھلے بندوں ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے ‘‘ کا نعرہ لگا یا تو ہندوستان کی متعصب قیادت کو ایڑی میں لگی اور سر پر جا کر بجھی ،بھارتی میڈیا نے علی گیلانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا وہ ان سے مقابلے کے لئے خوب تیاری کرکے آتے اور منہ کی کھا کر جاتے بھارتی چینل انڈیا ٹو ڈے کے اینکر راج دیپ سردیسائی نے جون 2015ء میں انہیں اپنے پروگرام میں لیا اور طنز اًََ کہا کہ آپ انڈیا کا کھاتے پہنتے اوڑھتے ہو،پنشن لیتے ہو،علاج کراتے ہو،لیکن خود کو انڈین ماننے سے انکاری ہو لمبے تمہیدی سخت سوال پر سید علی گیلانی نے نرمی سے کہا آپ یہ نو لاکھ فوج تو ہٹا ئیں پھر دیکھیں کہ ہم بھارت سے علاج کراتے ہیں یا نہیں ؟ہم قیدی ہیں اور قیدی کو کھاناکپڑے دینا علاج معالجہ قید کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے یہ دوہرا معیار نہیں سچ ہے ہم قید ی ہیںہم بھارتی نہیںہیں او ر میں اسی سچ کا اظہار کرتا ہوں۔ موت حق ہے لیکن لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے کہ یکم ستمبر کو یہ آواز خاموش ہو گئی ان کی وصیت کے مطابق سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ان کا جسد خاکی شہدا قبرستان لے جائے جانے کو تھا کہ نہتے بوڑھے سے خوفزدہ بھارتی سینا نے ان کا جسد خاکی قبضے میں لے لیا حیدر پورہ میںہی زبردستی تدفین کروا دی اور اس ظلم پر بھی مہذب دنیا کو متعفن چپ لگی رہی !اس گھناؤنی زبردستی پر افسوس تو ہوا لیکن سچ یہی ہے کہ سالار حریت ہر حرئت پسند کے دل میں ہیں تربتوں کے مقام سے فرق نہیںپڑتا قاضی سلیمان سلمان منصورپوری نے جیسے یہ شعر ان ہی کے لئے لکھا ہے : تودۂ خاک کو مت جانیو تربت میری میرا مرقد میرے احباب کے سینے ہوں گے