تیس سال قبل آغا صاحب کے یہ الفاظ موجودہ حالات میں نیشنل کانفرنس اور پیلز ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر بھارت نوا ز پارٹیوں پر صادق آتے ہیں۔غیر معمولی دانش اور فراست سے بھرپور آغا اشرف علی کو جہاں قرآنی آیات ازبر تھیں، اقبال، رومی ،ابن خلدون، مارکس و اینجلز پر عبور حاصل تھا، وہیں ان کی یاداشت میں سنسکرت کے تمام اپنیشد بھی گردش کرتے رہتے تھے، جو وہ گفتگو میں استعمال کرتے تھے۔ کشمیر ی راہنماوں یسین ملک، سید علی گیلانی اور مرحوم عبدالغنی لون کو کئی بار میں نے ان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دیکھا۔ ملک کے ساتھ ان کو خصوصی لگاو ٗ تھا، مگر 2010کے بعد جب گیلانی صاحب کو مسلسل ہاوٗس ارسٹ رکھا گیا ، تو وہ اکثر و بیشتر ان کی مزاج پرسی کیلئے حیدر پورہ میں انکی رہائش گاہ پر آتے تھے۔ کشمیر کی نئی نسل کیلئے وہ انگریزی زبان کے معروف شاعر پر وفیسر آغا شاہد کے والد تھے، جو نیویارک یونیورسٹی میں استاد تھے۔ وہ اس نسبت سے بہت خوش ہوتے تھے۔ 2001میں کینسر سے شاہد کی موت ہوگئی، جس سے وہ ٹوٹ گئے تھے۔ مگر وہ کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ 1950اور 60ء کی دہائی میں تعلیم اور دیگر شعبوں میں کشمیر میں مقامی ہندو یا پنڈت حاوی تھے۔ 1950تک آغا خاندان کو زیر عتاب رکھنے کے بعد شیخ عبداللہ نے جب مقامی اداروں میں بھرتی کیلئے مسلمانوں کو ڈھونڈنا شروع کیا، تو آغا اشرف کو دہلی سے بلا کر انسپکٹر آف اسکولز بنایا گیا۔ بعد میں انکو خطے کے اکلوتے ایجوکیشن کالج کا سربراہ بنایا گیا ، جہاں انہوں نے اساتذہ کی تربیت کا کام شروع کیا۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ اپنے خاندان کی قربت کا ذکر کرتے ہوئے آغا صاحب کا کہنا تھا کہ 1872تک ان کا خاندان بھی دیگر کشمیری مسلمانوں کی طرح غریب تھا۔ اس سال مہاراجہ رنبیر سنگھ کو دریائے جہلم کے راستے مانسبل جھیل جانے کی سوجھی۔ دوران سفر کشتی میں مہاراجہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھی۔ کشتی کو کنار ے لگا کر کسی حکیم یا وید کی تلاش شروع ہوئی۔ پاس ہی آغا اشرف کے پردادا آغا حکیم باقر کا دوا خانہ تھا۔ بس مہاراجہ کے ملازمین انکو کشتی تک لے آئے، جہاں انہوں نے شاہی مریض کا معائنہ کرنے کے بعد اسکو سیاہ نمک کی پڑیا کھلادی۔ مہاراجہ کے پیٹ سے فوراً گیس خارج ہونا شروع ہوئی اور چند لمحوں میں وہ ٹھیک ہوکر مانسبل کی طرف روانہ ہوگئے اور اسی کے ساتھ آغا باقر کو شاہی حکیم مقرر کردیا، جس سے اس خاندان کے دن پھر گئے۔ آغا شاہد نے مشہور مصنف امیتاب گھوش کو ایک بار بتایا کہ ان کے خاندان کی دولت و حشمت بس گیس خارج ہونے والی ایک ریاح کی دین ہے۔ وید بھسین اور آغا اشرف میں ایک قدرے مشترک یہ تھی کہ ہزاروں افراد ان کی بدولت مصنف اور اسکالر بن گئے، مگر خود ان دونوں کی اپنی کوئی تصنیف منظر عال پر نہیں آئی۔ جب ان سے استفسار کیا جاتا، تو جواب ہوتا تھا ’’کہ کیا سقراط نے کوئی کتاب لکھی ہے؟ سقراط کی تصنیف تو افلاطون ہے۔ میری کتابیں تو میرے لاتعداد شاگرد ہیں، جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘ 2006میں سرینگر کے ایک روزنامہ کو اپنے ایک طویل انٹرویو میں انہوں نے کشمیر کے نظام تعلیم کو استوار کرنے اور اس میں کشمیری مسلمانوں کو شامل کرنے کی راہ میں آئی مشکلات پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کو انسپکٹر آف اسکولز بنایا گیا ، تو کشمیر پنڈتوں کا ایک وفد بھارت کے پہلے وزیرتعلیم مولانا عبدالکلام آزاد کے پاس فریاد لیکر پہنچا۔ مولانا نے ان کو کہا کہ وہ ان کے عدم تحفظ کے احساس سے گو کہ واقف ہیں، مگر علم کو کشمیری مسلمانوں تک پہنچے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ بقول آغا اشرف، آزاد نے انکو نصیحت دی کہ تعلیم کے حصول کیلئے کشمیری مسلمانوں کی مدد کرکے وہ ان کو پستی اور ذلت سے نکلوانے میں رول ادا کرسکتے ہیں۔جس سے کشمیر ی مسلمان ان کے ممنوں رہینگے اور پنڈت ہمیشہ ان سے ایک قدم آگے رہینگے، کیونکہ استاد اور دینے والے کا ہاتھ لینے والے سے اوپر ہی رہتا ہے۔ مگر آزاد کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ آغا اشرف جب تعلیم کے محکمہ کے سیکریٹری مقرر ہو ئے ، تو ان کے مطابق ایجوکیشن کالج کے 20اساتذہ میں 19کشمیری پنڈت تھے۔ انہوں نے نو اساتذہ کی ٹرانسفر کے احکامات صادرکرکے نو مسلم پروفیسروں کو ان کی جگہ پر تعینات کروایا۔ بس کیا تھا چائے کی پیالی میں ایک طوفان آیا۔ کشمیر ی پنڈت اساتذہ نے احتجاج کیا کہ کشمیری مسلمانوں کو تعلیم دیکر ان کی روزی روٹی چھینی جا رہی ہے۔ جب حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، تو انہوں نے کشمیر مسلمان طلبہ کو پڑھانے سے انکار کردیا اور اگر پڑھانے کیلئے کلاس میں آتے بھی تھے، تو نہایت ہی بے دلی سے پڑھاتے تھے۔آغا صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کشمیری پنڈتوں کی ڈھٹائی سے بھری حماقت تھی، وہ کشمیر کی 95فیصد آبادی کی ترقی اور معاشی بہتری کے خلاف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیری پنڈت اپنے رویہ کی وجہ سے اپنے ہم وطن مسلمانوں سے دور ہوتے گئے، تاآنکہ کشمیر سے ہی چلے گئے۔ آغا صاحب اکثر اپنے فرزند شاہد کی یہ انگریزی نظم گنگناتے رہتے تھے۔ جس کا ترجمہ ہے ۔۔ ایک امن کے محل کے دروازہ پر ہم سرینگر میں دوبارہ ملیں گے۔ ہماری مٹھیاں ہوا میں لہرائیں گیں، جب تک سپاہی کنجیاں واپس کرکے ناپید نہ ہوجائیں گے۔ سچ ہے کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نور ی پر روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔۔ الوداع استادوں کے استاد آغا اشرف علی الوداع