مرا یار نصرت نصراللہ بھی چل بسا اور مجھے لاہور میں اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ایسے ہی لمحوں میں کراچی چھوڑنا مجھے کھلتا ہے۔ پھر لاہوریے پوچھیں گے یہ نصرت نصراللہ کون ہے‘ اس پر مجھے بعد بھی رونا آئے گا۔ میں نے اچانک فیس بک کھولی تو عافیہ اسلام اس اندوہ ناک واقعے کی خبر دے رہی تھیں۔ شاید آپ کو یہ بھی اندازہ نہ ہو کہ عافیہ سلام کون ہیں۔ انتہائی نفیس‘ شستہ شاندار خاتون صحافی جو مرے حافظے میں پاکستان کی پہلی سپورٹس صحافی تھیں۔ کیا لوگ تھے یہ سب۔ مجھے کراچی اور زیادہ یاد آنے لگا ہے۔ میں اکیلا سوچتا رہا کہ کس سے بات کروںکہ ضیا زبیری کا فون آ گیا۔ پھر ایک نام کہ آپ پوچھیں گے یہ کون ہے کراچی میں کیا کیا ہیراتھا۔ جب میں ضیا سے ملا تھا تو یہ سندھ اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن شاہ فرید الحق کے سیکرٹری تھے۔ بڑے مزے کے مقرر اور لکھاری۔اردو اور انگریزی دونوں میں کالم لکھا کرتے تھے۔ ضیاء سے کافی عرصے کے بعد بات ہوئی تھی۔ شکوہ شکایت کے بعد اس نے یہی پوچھا کہ خبر مل گئی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ کون سی خبر پھر ہم دیر تک اپنے نصرت نصراللہ کی باتیں کرتے رہے۔ یقین جانئے یہ ایک بے مثال نسل تھی اور کراچی کا وہ زمانہ ایک ناقابل فراموش عہد تھا۔ جب میں کراچی میں اترا تو سترویں عشرے کے ابتدائی دور تھے۔ بھٹو کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ اردو کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل چکا تھا۔ اس شہر نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پھر میں اس شہر کا ہو کر رہ گیا۔ یہاں کی ادبی فضائوں کا میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ یہ مگر ایک الگ دنیا تھی نظریاتی اور باعمل لوگوں کی خوشگواردنیا۔ نصرت نصراللہ سنا ہے اسلامی جمعیت میں رہا تھا۔ اس نے انگریزی میں ماسٹر کر رکھا تھا۔ ایک نہایت باذوق اور نفیس مزاج پایا تھا۔ ان دنوں مارننگ نیوز کے نام سے ایک روزنامہ ہوا کرتا تھا جو ملک ٹوٹنے سے پہلے ڈھاکا سے بھی نکلا کرتا تھا، یہ اس کا حصہ تھا۔ خاندانی وجاہت بھی ایسی تھی کہ رشک کر سکتا ہے۔ عمر قریشی‘ نصرت کے ماموں تھے۔ عمر قریشی جیسی انگریزی کس نے بولنا ہے یا لکھنا ہے۔ کرکٹ کے کمنٹیٹر‘ بھٹو کے دوست اور کلاس فیلو۔ مرے بھی دوست اس لئے کہ انہوں نے اپنی کتاب دیتے ہوئے اس پر یہی لکھا تھا۔ وہ غالباً نوبھائی تھے۔ جن میں دو ایک سے میں ملا ہوں۔ وہ بھی الگ سے اپنی اپنی جگہ ادارہ تھے ۔ستوقریشی کے در پر کیوںحاضری نہیں دیا کرتا تھا۔ ان کی جیسا کہ مجھے یاد ہے کہ صرف ایک بہن تھی جو نصرت کی والدہ تھیں۔ تدریس اور صحافت دونوں پیشوں سے وابستہ رہیں۔ ایک شاندار عورت تھیں۔ ان کے والد یعنی عمر قریشی کے والد‘ متحدہ ہندوستان میں پوسٹ ماسٹر جنرل تھے۔ مگر نصرت بالکل قلندر آدمی تھا۔ ادب اور صحافت میں ڈوبا ہوا۔ ایک دن میں نصرت کے دفتر پہنچا تو یہ ایک مشہور اداکارہ کی تصویر کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے یا جسم کو نہیں‘ اس کی ایڑیوں کو مجھے دیکھ کر چونکا۔ کہنے لگا نہیں پتا ہے کہ ان ایڑیوں کی انشورنس اتنے لاکھ(آج کے کروڑوں) میں ہوئی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں اس میں کیا خوبی ہے۔ مجھے ایسے استاد یاد آئے خواجہ احمد دین۔ جنہیں ہم بابا جی کہتے تھے ،وہ مرے استاد بھی تھے۔ ہمسائے بھی اور رشتہ دار بھی۔ بچپن ہمارا ان کے پاس گزرا۔ ان کی پوتی میں‘ اور ہمارے ایک عزیز ہم تینوں اکٹھے ان سے پڑھا کرتے تھے۔ کمال کے استاد تھے۔ بالکل گھر کا ماحول تھا۔ مگر بڑا سخت گیر ماحول ۔ ایک دن ایک نسوانی چہرے کی تصویر ہمیں پکڑا کر سوال کیا کہ بتائوں اس میں کیا چیز خوبصورت ہے یا کیا بات اسے خوبصورت بناتی ہے۔ آنکھ ‘ ہونٹ‘ ماتھا یا کچھ اور ہم ایک ایک چیز کو پرکھنے کے لئے باقی حصوں کو ڈھانپ کر جائزہ لیتے پھر الگ بتاتے۔ ادب اور فنون لطیفہ کی ابتدائی تعلیم ہم نے ایسے ہی استاتذہ سے ایسے سخت گیر ‘ بے تکلف ‘ گھریلو ماحول میں حاصل کی ہے۔ لگتا تھا نصرت نصراللہ بھی ایسی تربیت سے گزرا تھا۔ خالص اسلامی ذہن مگر ادب اور فنون لطیفہ کا بہترین تربیت یافتہ کراچی میں عرض کیا نا کہ ایک پوری نسل تھی۔ بتا چکا ہوں کہ جب میں کراچی پہنچا تو سب سے پہلے منور حسن ‘ دوست محمد فیضی اور دو چار اور دوستوں سے ملاقات ہوئی۔وہاں کی جماعت اسلامی بھی بڑی مزیدار تھی۔ مجھے اس میں مولویانہ انداز کے بجائے ایک ایسا تہذیبی ماحول نظر آیا جو تقسیم کے وقت لاہور کے مسلم لیگیوں میں ہو گا۔ نورانی میاں کی جمعیت العلماء بھی اپنا ہی دلچسپ انداز رکھتی تھی۔ جماعت تو پورے شہر پر چھائی ہوئی تھیں۔ صحافیوں میں بھی اس کا ایک شاندار آواز تھی جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا مگر پھر میں ایک دوسری دنیا میں چلا جائوں گا۔ جدید صورت حال میں ایک دیندار شخص کو کیا طریقہ اپنانا چاہیے یہ میں نے اپنے ہم عصروں میں نصرت نصراللہ جیسوں سے سیکھا اور اپنے سینئرز میں میجر ابن الحسن جیسوں سے۔ مری رگ رگ میں ان سے صحبتوں کی پرچھائیاں ہچکولے کھاتی ہیں۔ مری ایک دوسری دنیا بھی تھی‘ خالص ادب کی دنیا مجھے یہ سب ایک بحر رواںکا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ کیا عمدہ تہذیب تھی‘ کیا دیندار ماحول تھا۔ اور کیا اعتدال پسندانہ بلکہ آزادانہ طرز عمل تھا۔ کیا کچھ یاد آ رہا ہے نصرت نصراللہ کے بہانے۔ نصرت بعد میں پی پی ایل میں چلے گئے پھر کراچی پورٹ ٹرسٹ میں۔ مگر صحافت سے ان کا رابطہ برقرار رہا۔ وہ مسلسل لکھتے رہے۔ دوست احباب سے ملتے رہے۔ ایک بار کسی امیر البحر سے میری ملاقات طے تھی۔ حاضر ہو گیا کہ آخر نصرت کا حکم تھا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بلیوں کا دلدادہ بھی ہے۔ کیونکہ ان کا باس بھی یہ شوق رکھتا تھا۔ دونوں کی بلیاں الگ مزاج رکھتی تھیں۔ امیر البحر کی بلی ڈسپلن کی پابند کہ کہاں کھانا پینا ہے اور کہاں دوسرے حوائج ضروریہ سے فارغ ہونا ہے۔ نصرت کی بلی شاید نئی نئی آئی تھی‘ ان کی بات کا لحاظ نہیں کرتی تھی۔ رات بھی خراب ہو جاتی اور بھیگ بھی جاتی۔ نصرت کو ذرا ملال نہ تھا۔ وہ مزے لے لے کر یہ سب بتا رہا تھا۔ مجھے لگا کہ اس کے اندر کا ڈھانچہ زندہ تھا جسے آدمی کا باپ کہا گیا ہے۔ یہ بچہ جب تک زندہ ہے فن کار اور تخلیق کار بھی اس وقت تک سانس لیتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں جب وہ بیمار ہوا تو اس کی دوبلیوں نے گھر کے اندر آنے سے انکار کر دیا نصرت کو پوچھا تو اس نے کہا شاید انہیں خبر ہو گئی ہے میں اب لوٹ کر نہیں آئوں گا۔ ادریس بختیار ‘ قیصر محمود خدا سب کو سلامت رکھے۔ کس کس سے افسوس کروں‘ ایک چراغ اوربجھ گیا ہے۔ اورنصیر سلیمی نے بھی مجھے اس کی خبر نہ دی۔پہلے ہی اندھیرا ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں روشنیاںپھیلانے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ میں یہاں بیٹھ کر ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں مجھے بنانے میں کتنے ہنر مندوں نے کام کیا ہو گا۔ کیا میں آنے والوں میں وہ ہنر منتقل کر سکا۔ مرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ الوداع‘ نصرت نصراللہ ‘ الوداع ! میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے!