17 نومبر 2021 کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت 33 بل پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ان میں سب سے اہم الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال اور دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مسئلہ 2008 سے اب تک چلا آرہا ہے۔ہندوستان میں 2004 سے ووٹنگ مشین کا استعمال ہو رہا ہے۔پاکستان میں 2013 اور 2018 کے دو الیکشن ووٹنگ مشین کے بغیر ہو چکے ہیں۔اب پاکستان میں 2023 کے الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ساتھ ہوں گے۔اب تک 31 ممالک میں الیکٹرانک مشین کا استعمال ہو چکا ہے۔14 ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کر رہے ہیں۔ گیارہ ممالک میں تجربات ہو رہے ہیں۔پانچ ممالک میں پائلٹ پراجیکٹ چل رہے ہیں۔8ممالک میں پائلٹ پراجیکٹ کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ہالینڈ، آئرلینڈ، جرمنی اور برطانیہ میں اسکا استعمال ترک کر دیا گیا ہے۔ انڈیا میں پہلے 1998کو تجربہ ہوا اور 2004 سے اسکا باقاعدہ استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت میں 2004 میں 38 کروڑ ووٹر کے لئے دس لاکھ الیکٹرانک مشین استعمال ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک اس مشین کا استعمال نہیں ہوا ،لیکن حکومت اور اپوزیشن نے اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ الیکشن کے عمل میں سب خرابیاں اس مشین کو استعمال سے ٹھیک ہو جائیں گی اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ اس مشین کے استعمال سے دھاندلی کے نئے طریقے ایجاد ہو جائیں گے۔ کون اس بات کو مانتا ہے 1977 سے لیکر اب تک دس الیکشن ہو چکے ہیں سب میں دھاندلی کا شور مچا ہے۔ 1985 کے الیکشن غیر جماعتی تھی ان الیکشن میں واویلا کرنے والے انفرادی لوگ تھے ،ورنہ ہر الیکشن میں ہر ہارنے والی پارٹی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے ، کبھی الیکشن انجینئرڈ ہوتے ہیں۔ کبھی الیکشن چرا لئے جاتے ہیں۔ کبھی کسی کا مینڈینٹ چوری ہو جاتا ہے اور کبھی کسی کا ووٹ گنتی سے رہ جاتا ہے۔ ہر بار بہت سی پرانی کہانیاں اور اور کچھ نئے ڈائلاگ ہوتے ہیں۔ویسے مزے کی بات ہے الیکٹرانک مشین کی سب سے زیادہ مخالفت اپوزیشن کی وہ جماعتیں کر رہی ہیں جو پہلے اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ ان کو پتہ ہے اقتدار میں کیسے آنا ہے اور کیسے الیکشن جیتے جاتے ہیں۔ الیکشن ووٹنگ مشین تو ایک بہانہ ہے اصل مسئلہ اپنے مفادات پر پڑنے والی زد ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں منظور ہونے والہ دوسرا بل سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 2011 سے کہہ رہی تھی کہ وہ تارکین وطن کو اپنے ووٹ کا حق دلائے گی۔ 2013 اور 2018 کے دو الیکشن اس وعدے پر ہی گزر گئے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس مسئلہ پر بھی حکومت کی مخالفت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت کہ وجہ سامنے آتی ہے اس کا ووٹ بینک صرف سندھ میں ہے پاکستان سے باہر بہت کم لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی ملیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رویہ کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیوں اس کی مخالفت کر رہی تھی۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بہت سے پاکستانی ایسے ہیں جو آج بھی نواز شریف کو اس ملک کا سب سے بڑا لیڈر مانتے ہیں اور انکا خیال ہے نواز شریف پاکستان کے تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق پاکستان کی آنی والی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے گا۔ 90 لاکھ سے زائد پاکستان غیر ممالک میں رہائش پزیر ہیںجو ملکی آبادی کا چار فی صد سے زائد بنتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے الیکشن میں 1یک کروڑ 68 لاکھ ووٹ لئے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 69 لاکھ اور آزاد امیدواروں نے 60 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ اب ان 90 لاکھ نئے ووٹ سے طاقت کا توازن کسی بھی طرف جھک سکتا ہے۔یہ نوے لاکھ پاکستانی چار کروڑ پاکستانیوں پے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ زندگی کا معمول ہے پیسے کمانے والی کی بات زیادہ سنی جاتی ہے۔پہلے تارکین وطن کو پاکستان کی سیاست سے اتنی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ انکا کردار پاکستان کی سیاست میں اہم نہیں تھا۔ اب جب انکی دلچسپی ہو گی اور وہ پاکستان میں رہنے والے اپنے عزیزوں کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ ووٹ کس کو دیں۔تارکین وطن پاکستانی معاشی طور پر پاکستان کے لئے کیا اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ لگا لیںکہ ایک سال میں پاکستان آنے والی رقم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ پاکستان کا کل غیر ملکی قرضہ 130 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چار سال میں پاکستان اپنا قرض اتار سکتا ہے یہ لوگ دو گنا پیسہ بھیجنا شروع کر دیں۔ سعودی ارب سے 7 اعشاریہ سات ارب ڈالر،متحدہ عرب امارات سے چھ اعشاریہ 1یک ارب ڈالر ، برطانیہ سے چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر اور امریکہ سے 2 اعشاریہ 7 ارب ڈالر پاکستان میں آئے۔ 99 لاکھ پاکستانی ووٹرز اس وقت غیر ممالک میں ہیں۔ان 99 لاکھ میں سے 80 فی صد چھ ممالک میں ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، برطانیہ، امریکہ اور برطانیہ۔ اور دوسرا اہم مسئلہ 99 لاکھ میں سے 58 فیصد 20 اضلاع میں رہتے ہیں۔ان 20 اضلاع میں قومی اسمبلی کی 91 سیٹ ہیں اور ان 91 سیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی 52 سیٹ اور پاکستان مسلم لیگ کی 30 سیٹ ہیں پیپلز پارٹی کی ایک اور متحدہ قومی موومنٹ کی دو سیٹ ہیں۔ یہ بیس اضلاع لاہور، راولپنڈی، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، فیصل آباد،جہلم‘ اٹک، سرگودھا،منڈی بہائوالدین، ملتان ،ڈیرہ غازی خاںپنجاب میں اور سوابی، مردان،سوات، پشاور خیبر پختون خواہ میں اور کراچی ایسٹ، کراچی سنٹرل اور کراچی ساؤتھ سندھ میں ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں اہم تبدیلی آسکتی ہے۔جب اتنی بڑی تعداد میں نئے ووٹر ان حلقوں میں اپنا ووٹ ڈالیں گے۔جناب بلاول بھٹو نے یہ بیان دیکر عقل مندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پیرس، کیلیفورنیا اور برطانیہ میں بیٹھے پاکستانی کراچی اور قبائلی علاقوں کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جو لوگ 30 ارب ڈالر سالانہ دیتے ہیں اب ان کو انکا حق دینے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ البتہ زرداری صاحب کو داد دینی پڑے گی جب انہوں نے کہا اس کا پھل کوئی اور کھائے گا۔ کیا اس میں بھی کوئی پیشگوئی ہے یہ آنے والے وقت بتائے گا۔