ہر چند کہ التوائی طاقتیں بدستور سرگرم ہیں (ابھی کل ہی ایک عمرانی اینکر حیرت سے پوچھ رہا تھا کہ اگر صفائی نہ ہوئی تو پھر الیکشن کا فائدہ کیا ہے) پھر بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہو جائیں گے۔ تاہم کچھ دوسرے مبصر بھی ہیں جو ان کی بات کی تائید تو کرتے ہیں لیکن کچھ اضافے کے ساتھ۔ کہتے ہیں کہ الیکشن تو ہو جائیں گے لیکن لگتا ہے کہ بلامقابلہ بھی ہوں گے۔ تمام میلے کچیلے بچے اس بہانے کبھی اس حیلے اندر کردیئے جائیں گے، صرف اچھے بچے بچیں گے۔ کم از کم پنجاب میں تو کوئی ’’ملا کھڑا‘‘ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک کو صاف پانی سکینڈل میں پکڑیں گے اور دوسرے کو خراب ہوا کے سکینڈل میں۔ ان سے پوچھا کہ میاں، کوئی ایسا بھی تو ہوگا جس کا نام کسی سکینڈل میں نہیں آتا ہوگا، اسے کیسے پکڑیں گے، فرمایا، اسے حد سے زیادہ چالاک ہونے کے جرم میں۔ تو جس کا نام کسی سکینڈل میں نہیں ہوگا، اسے یہ کہہ کر پکڑا جا سکتا ہے کہ اپنی بے حد چالاکی اور ہوشیاری کی وجہ سے اس نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا، یہ سب سے خطرناک ہے۔

٭٭٭٭٭

بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ شفاف انتخابات میں (جو اب خیر سے بلامقابلہ ہونے کی صورت پکڑ رہے ہیں) نیب کا کردار بہت اہم ہوگا اور وہی ہورہا ہے۔ چند دن پہلے ایک اخباری رپورٹ تھی کہ نیب کے پاس پیپلزپارٹی اور سندھ سے متعلق ایک ہزار سے زیادہ کیس ہیں، مسلم لیگ والوں کے خلاف سو کے لگ بھگ۔ لیکن جو کیس بھی کھلتا ہے، مسلم لیگ والے پر ہی کھلتا ہے۔ نیب کے کسی اعلیٰ افسر تک رسائی کا تو سوال ہی نہیں، ہاں ایک جونیئر کلرک کی سطح کے ’’ہم منصب‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ اس سے پوچھا بھئی یہ ماجرا کیا ہے، جو بھی انکوائری ہوتی ہے مسلم لیگ والے کے خلاف ہوتی ہے۔ جو بھی پکڑا جاتا ہے، لیگی ہی پکڑا جاتا ہے۔ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا، سب اوپر والے کی مرضی ہے۔ کہا یعنی؟ بولا، دراصل احتساب تو بلا امتیاز ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں لیکن کیس کھولنے اور پکڑ دھکڑ کا فیصلہ قرعہ اندازی سے ہوتا ہے اب کیا کیجئے کہ جو قرعہ بھی نکلتا ہے کسی لیگی ہی کا نام ہوتا ہے تو یوں یہ بات اوپر والے پر آ گئی۔ کہا، چند ہفتے پہلے سندھ کے کسی انور مجید کے خلاف انکوائری کھلنے کی خبر آئی تھی پھر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ بولا، ایک قرعے میں اس کا نام نکل آیا تھا۔ تسلی کے لیے دوبارہ قرعہ نکالا تو کسی لیگی کا نام نکلا۔ اشارہ کافی تھا کہ اوپر والے کی مرضی نہیں ہے چنانچہ انور مجید کا کیس اب تا اطلاع ثانی ٹھپ ہے۔

٭٭٭٭٭

بلامقابلہ الیکشن کے فائدے ہی فائدے ہیں۔ کوئی مار ہوگی نہ کوئی دھاڑ۔ مطلب دھاڑ تو بالکل ہی نہیں۔ امن، شانتی کے ساتھ معاملات نمٹ جائیں گے۔ دھاندلی کی شکایت ہو گی نہ پنکچر کا واویلا۔ ویسے بھی مجبوری ہے اور نظریہ ضرورت بھی۔

دو تین دن پہلے کی بات ہے، بالائی فضائوں سے رابطے کے لیے معروف ایک اخبار نے تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس کا چرچا بھی ہوا، کئی جگہ، بعض جگہ نہیں بھی ہوا۔ خبر یہ تھی کہ ارباب بنی گالا نے زرکثیر صرف کر کے ملک بھر کے بالعموم، پنجاب کے شہروں کا بالخصوص انتخابی سروے کرایا۔ نتیجہ آیا تو سخت حوصلہ شکن نکلا۔ اب خلاصہ کیا کہیے، ایک لفظ ’’فارغ‘‘ سے مطلب ادا ہوتا ہو تو کافی سمجھ لیجئے۔ چنانچہ مجبوری ہے اور مجبوری ہی کا دوسرا نام نظریہ ضرورت ہے۔ کہتے ہیں، ارباب بنی گالا کو یہ وہم ستا رہا ہے کہ یہ اتنے ڈھیر سارے الیکٹ ایبل جو گھر گھرا کر ہمارے پاس آ گئے ہیں، ایک آدھ کو چھوڑ کر انتخابات میں باقی سارے ڈس ایبل ہو جائیں گے۔ لو بھئی، اس وہم کا اب کیا علاج بجزو نظریہ ضرورت!

٭٭٭٭٭

خان صاحب پھر بھی حوصلے میں نظر آتے ہیں۔ میانوالی اچھا جلسہ کیا۔ عالمی نیوز ایجنسی نے لکھا ’’لارج‘‘ تھا۔ یعنی بڑا تھا۔ لارج سے بڑے کو ’’بگ‘‘ کہتے ہیں اور بہت بڑے کو ’’ممیتھ‘‘ ممیتھ نہ سہی، بگ نہ سہی، لارج تو تھا۔ ساختہ بے ساختہ کافرق سنا ہو گا، وہی آورد اور آمد والا معاملہ ہے جو عمل بے ارادہ بے سوچے سمجھے ہو جائے، اسے بے ساختہ کہتے ہیں تو اس جلسے میں ایک عمل اسی بے ساختہ طریقے سے ہوگیا۔ خان صاحب نے ایک گھنٹہ تک نوازشریف کی شان میں قصیدہ ہجویہ بے نقطہ پڑھا، پھر اچانک پوچھا،  اوئے لوگو! بتائو کیا لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی؟

سوال اچانک تھا، لوگ تیار نہیں تھے اس لیے ردعمل بے ساختہ تھا۔ یعنی بہت سے لوگوں کے منہ سے ہاں نکل گیا، باقی خاموش رہے، موقع کی نزاکت کو سمجھتے تھے۔ یہ جواب سن کر خان صاحب بے ساختہ چونکہ اور ڈی کمپوز ہو گئے لیکن فوراً ہی خود کو کمپوز کیا اور قصیدہ جہاں چھوڑا تھا، وہیں سے پھر شروع کردیا۔ امید ہے بے ساختہ کا مطلب آپ کو سمجھ آ گیا ہوگا۔

٭٭٭٭٭

سرمایہ کاری اور اقتصادی صورتحال کی تجزیہ کاری کرنے والی عالمی ایجنسی موڈیز نے پچھلے دنوں پاکستان کی ریٹنگ منفی کردی، ساتھ ہی آنے والے حالات کے بارے میں کچھ خراب قسم کی پیش گوئیاں بھی کر ڈالیں۔

یہ کیا ہوا؟ اچھا تو بہرحال نہیں ہوا لیکن یہی ایجنسی تین چار برسوں سے مسلسل پاکستان کی ریٹنگ بڑھاتی رہی ہے اور اچھے دنوں کی خبر دیتی رہی ہے۔ اب کیا ہوا کہ ادھر ایک ’’ساختہ‘‘ عدم استحکام کے ذریعے منتخب حکومت کو متزلزل کیا گیا اور ساتھ ہی معاشی اشاریئے خراب ہونے لگے، ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے، مہنگائی جو کم رفتاری کے باعث گدھا گاڑی بن چکی تھی، پھر سے فرار ی بن کر فراٹے بھرنے لگی۔ عدم استحکام بے ساختہ ہو تو حالات ایسے خراب نہیں ہوتے، ساختہ ہوں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ساختہ سے بے ساختہ اچھا، ساختہ سے خدا بچائے۔

ویسے اخبارات میں سال بھر پہلے آیا تھا کہ موڈیز نے پاکستان کو اس ساختہ عدم استحکام کے نتائج کے بارے میں خبرداری دے دی تھی۔

٭٭٭٭٭

پشاور میں متحدہ مجلس عمل کا جلسہ ہوا۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حاضری کے اعتبار سے مایوس کن تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ مایوس کن سے دو پوائنٹ نیچے تھا۔ وجہ کچھ او رہے، اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی جے یو آئی اور جماعت اسلامی میں مقابلہ تھا۔ مقابلہ اس بات پر تھا کہ دیکھیں، کون اپنے حامی کم تعداد میں لایا ہے۔ یہ مقابلہ دونوں جماعتوں نے جیت لیا۔

مولانا فضل الرحمن کا خطاب سنجیدہ تھا لیکن مائل بہ برودت۔ کم درجہ حرارت والا۔ سراج الحق نے حسب معمول مزاحیہ خطاب فرمایا اور میلہ لوٹ لیا۔ فرمایا، ہمیں ایک دن کے لیے بھی اقتدار ملا تو اسلامی نظام نافذ کردیں گے۔ حضرت، آپ نے تو لطیفہ سنایا لیکن اگر ریاست نے اسے سنجیدگی سے لے لیا تو؟ یعنی اس نے اقتدار آپ کو دے دیا اور شام کو یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ جائو، اب اسلام نافذ ہو گیا ہے، کوئی اور کام دھندا کرو۔