ایک وقت تھا الیکشن کمیشن حکومت کے پاس جا کر کہتا تھا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے ۔حلقہ بندیاں کرنے کے لئے الیکشن کمیشن نے حکومت کو بار بار کہا کہ الیکشن بل 2017ء کو جلدی پاس کریں ۔معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ سپریم کوٹ نے خودحکم دیا کہ آپ حلقہ بندیا ں شرو ع کر دیں ۔اس پہ ساری سیاسی جماعتیں آپس میں مل کر بیٹھیں اور معاملہ کونسل آف کامن انٹرسٹ میں چلا گیا ۔30اپریل کو ووٹ رجسٹریشن کا عمل ختم ہو گیا ۔اور اب حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکشن جاری ہو جائے گا ۔لہذا آئینی اور قانونی طور پر الیکشن 2018ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔اس کے باوجود ایک سوال جو بڑے زور شور سے پوچھا جا رہا ہے اور اسلام آباد کے ایوانوں میں ڈسکس ہو رہا ہے کہ کیا الیکشن مقررہ وقت پہ ہونگے یا نہیں ؟اگر حکومت اپنا وقت 31مئی کو پورا کرتی ہے تو نگراں حکومت کے پاس الیکشن کروانے کے لئے 60دن ہونگے بصورت دیگر اگر حکومت چند دن پہلے ہی اسمبلی تحلیل کر دیتی ہے تو نگران حکومت کے پاس الیکشن کروانے کے لئے 90د ن ہونگے ۔دونوں صورتوں میں الیکشن اگست کے پہلے ہفتے میں متوقع ہیں ۔لیکن دوسری جانب سیاسی جماعتیں جس طرح ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں اور گالم گلوچ میں مصروف ہیں آنے والے دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامہ انتہائی گدلا ہوتا نظر آرہا ہے ۔خصوصا پی ٹی آئی کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعدپی ایم ایل این کافی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے ۔پچھلے کچھ دنوں سے نواز شریف اور انکی صاحبزادی عمران خان اور آصف زرداری کے بجائے کچھ غیر مرئی قوتوں کا ذکر کر رہی ہیں ۔جن کے خلاف ان کو الیکشن لڑنا ہے ۔وہ نادیدہ طاقتیں کون ہیں ؟کیا چاہتی ہیں اور کیا کر رہی ہیں نوازشریف صاحب اس بارے میں کچھ خاص لب کشائی نہیں کر رہے ہیں ۔تھوڑا سا ذکر 2013ء کے الیکشن کا کرتے ہیں ۔جب 2013ء کا الیکشن پی ایم ایل این نے جیتا تو حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصا پی ٹی آئی نے دھاندلی کا الزام لگایا اور پی ٹی آئی نے اپنے سارے الزا م الیکشن کمیشن کے سر رکھے جو کہ بقول پی ٹی آئی کے شفاف الیکشن کروانے میں ناکام رہا ۔اس کے بعد 126دن کا دھرنا ہوا۔پھر معاملہ کمیشن کے پاس گیا ۔کمیشن نے تحقیق کے بعد الیکشن کمیشن کی 40سے زائد کمزوریوں کا ذکر کیا اور الیکشن کو صاف شفاف قرار دیا ۔کسی بھی موقع پر عمرا ن خان یا انکی جماعت نے الیکشن میں کسی غیر مرئی قوت کا ذکر نہیں کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن آپ نے جیتا اور حکومت کی، اب آپ کو نظر نہ آنے والی قوتیں کہاں سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں ؟اگر ایسی کوئی قوت ہے تو آپ کو اس بارے میں بات کرنی چاہئے ۔آپ کو بتانا چا ہئے کہ وہ کون نادیدہ قوتیں ہیں ؟کیا چاہتی ہیں ؟وہ آپ کے خلاف الیکشن کیوں چوری کرنا چاہتی ہیں ؟در حقیقت یہ کوئی نادیدہ قوت نظر نہیں آرہی ہے بلکہ احتساب عدالت میں چلنے والے کیس اور ان کے فیصلے ان کے اعصاب پہ سوار ہیں ۔عدالت عظمیٰ نواز شریف کو پہلے ہی انتخابی سیاست سے تاحیات باہر کر چکی ہے ۔ان کی جانشین مریم صفدر کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔نیب کے انوسٹی گیشن افسر عمران ڈوگر جو آجکل اپنا بیان ریکارڈ کر وا رہے ہیں ان کے مطابق مریم صفدر کی جانب سے جعلی کاغذات کی تیاری ثابت ہو چکی ہے جس میں مریم کے بھائی اور شوہر نامدار برابر کے شریک ہیں ۔لہٰذا اس تناظر میں پی ایم ایل این اور خصوصا نواز شریف کے خاندان کی سیاست بھنور میں پھنستی نظر آرہی ہے ۔پنجاب کے اندر شہباز شریف بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مختلف کیسز میں پھنستے نظر آرہے ہیں ۔میری اطلاع کے مطابق احد چیمہ کا کیس شہباز شریف کی سیاست کے لئے زہر قاتل ثابت ہو نے جا رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ حمزہ شہباز کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔یہ وہ زمینی حقائق ہیں جو مریم اور نواز شریف کو غیر مرئی مخلوق نظر آ رہے ہیں ۔ اگلے الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے کا زیاد ہ دارومدار اس وقت حکومتی پارٹی اور اس کی لیڈر شپ پہ ہے ۔سب سے پہلے اس میں نگران وزیر اعلی اور وزیر اعظم کا تقرر ہے ۔بحثیت حکومتی پارٹی پی ایم ایل این وفاق اور پنجاب میں اس عمل کی حصہ دار ہوگی ۔وفاق اور پنجاب میں پی ایم ایل این، متعلقہ اپوزیشن مل کر نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں لائے گی ۔اس عمل کو 31مئی تک مکمل ہونا ہے ۔الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنی تیاری کا بتا چکا ہے ۔لہذ اوہ 2018ء کا الیکشن کروانے کے لئے عملی طور پر تیار ہے ۔الیکشن کو ملتوی کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ ہے پی ایم ایل این کے لیڈر نواز شریف کا عمل ۔کچھ معتبر ذرائع کے مطابق اگر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کو احتساب عدالت میں سزا ہو جاتی ہے تو ملک کے اندر غیر معمولی امن عامہ او ر سیاسی عدم استحکام پید ا ہو سکتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دس سال سے پنجاب میں حکومت میں ہونے کے سبب پی ایم ایل این حالات خراب کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاستی ادارے اس طرح کی کسی بلیک میلنگ کا شکار ہونگے کہ نہیں ؟سپریم کورٹ اس طرح کے حالات سے نکلنے کے لئے آرٹیکل 191کے تحت عمل کر سکتی ہے ۔ اب اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو اس کا سارا کریڈٹ سیاسی جماعتوں کو جائے گا نہ کہ کسی ادارے کو ۔آئندہ کے چند ہفتے اہم ہیں ۔ اس میں واضح ہو جائے گا کہ ہم کیا 2018ء الیکشن کی طرف پر امن طریقے سے جا رہے ہیں یا پھر نواز شریف کا بیانیہ کامیاب ہونے جا رہا ہے جس کا واحد مقصد انکی شخصی سیاست کی بقا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو اس کا واحد راستہ فری اینڈ فئیر الیکشن ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں او ر ادارے پر امن الیکشن کی طرف جائیں گے ۔