مقام شکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے بعد ازخرابی بسیار ہی سہی، امیدواروں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لے لیا اور ملتان، نارووال اور سیالکوٹ میں امیدواروں کوخوفزدہ کرنے کی اطلاعات پر چیف سیکرٹری اور آئی جی سے جواب طلب کرلیا۔ رانا اقبال سراج مسلم لیگ (ن ) کے امیدوار ہیں ان پر بھی مبینہ تشدد کا نوٹس لے لیا گیا ہے۔ میاں نوازشریف کے مطابق ملتان میں ان کے امیدوار کو حساس ادارے کے دفتر میں بلا کر تھپڑ مارے گئے اورچیف جسٹس بھی انھیں دن رات گالیاں دینے والے کے ساتھ دورے کر رہے ہیں، چوہدری نثار علی خان جنہیں ’حسن اتفاق‘ سے ’’جیپ‘‘ کا نشان ملا ہے ان سے بھی میاں صاحب شاکی ہیں، یقینا اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ عد لیہ، نیب، الیکشن کمیشن اورحتیٰ کہ نگران حکومت سبھی کا جھکاؤ تحریک انصا ف کی طرف اور مسلم لیگ (ن) کے لیے غیرموافق ہے۔ رانا اقبال سراج نے تو میاں صاحب کے بیان کی تردید کردی ہے اور کہا ہے کہ تشدد نہیں ہوا بلکہ محکمہ زراعت نے ان کے گودام پر چھاپہ مارا ہے۔ ملک میں جس قسم کا کلچر جنم لے رہا ہے اس کا تازہ شاہکار لیاری میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے قافلے پر پرتشدد حملہ اور گاڑیوں پر پتھراؤ شامل ہے۔ وہاں پیپلز پارٹی کے پرچم نذر آ تش کیے گئے۔ لیاری پیپلزپارٹی کا ہوم گراؤنڈ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو تشدد کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ2013ء کی منتخب اسمبلی میں پیپلزپارٹی دوسری بڑی جماعت تھی بلاول بھٹو کو نگران حکومت اور سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کی جانب سے ایسی مناسب سکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی جا رہی جیسے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تحفظ فراہم کیاجا رہا ہے جیساکہ وہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ یہ طرز عمل کھلم کھلا دہرے معیار کی غمازی کرتا ہے۔ بنی گالہ میں عمران خان کی اقامت گاہ کے با ہر پی ٹی آئی کے ہی کھلاڑیوں کے مظاہروں کو روکنے کے لیے اسلام آباد کی انتظامیہ نے رینجرز کے سیکٹر کمانڈر کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ شاید اس پر عمل درآمد تو نہیں ہوا لیکن کچھ عرصہ پہلے عمران خان کے پرائیویٹ گارڈز کی جگہ پولیس نے لے لی اور ریزرو پولیس تعینات کر دی گئی۔ عمران خان کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس کی مستعدی قابل تعریف ہے اور کسی کو اس پراعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو کو تو ایک مشتعل ہجوم کا سامنا تھا جبکہ عمران خان کی اقامت گاہ کے باہر تو ان کے اپنے ہی ناراض حواری تھے جو پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اچھا کیا کہ بروقت وضاحت کر دی کہ وہ کسی کی انتخابی مہم نہیں چلا رہے یقینا ایسا ہی ہے لیکن ان کا عملی طور پر پی ٹی آئی کی اتحادی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی پٹیشن سننے کے بعد راولپنڈ ی کے زچہ بچہ ہسپتال کا دورہ کرنا جہاں تما م نیوز چینلز کی آنکھوں کے سامنے شیخ رشید بھی ان کے ہمراہ تھے سے کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرا۔ چیف جسٹس صاحب نے 18ماہ میں ہسپتال مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ متذ کر ہ ہسپتال شیخ رشید کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس میں شامل ہے ۔اس موقع پر شیخ رشید نے کہا کہ اس ہسپتال کو آپ سے منسوب ہونا چاہئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہم چاہتے ہیں۔ یقینا اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فنڈز دینے میں لیت ولعل سے کام لیا لیکن عین انتخابی مہم کے دوران جبکہ الیکشن کمیشن نے تمام پراجیکٹس کے لیے فنڈز روکے ہوئے ہیں بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس صاحب وہاں تشریف نہ لے جا تے۔ ان کی نیت صاف ہے لیکن ناقدین کے منہ کون بند کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پہلے تو یہ درست فیصلہ کیا کہ وہ ہسپتال کا دورہ نہیں کریں گے لیکن نہ جانے کیوں انھوں نے اپنا یہ ارادہ بدل دیا ۔اس دورے کے بعد پریس کانفرنس میں شیخ صاحب نے یہ ضرور کہہ دیا کہ میری عمر آپ (چیف جسٹس)کو لگ جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی خبریں اس حد تک زور پکڑ گئی ہیں کہ پارٹی کے صدر میاں شہبازشریف کو خود تردید کرنی پڑی کہ ہمارے ذہن میں الیکشن کے بائیکاٹ کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ بائیکاٹ کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے فرمایا تھا کہ جی آیاں نوں ضرور بائیکاٹ کریں۔ نہ جانے تحریک انصاف کو ایسے ممکنہ بائیکاٹ سے کیا فائد ہ ہو گا۔ اس سے تو عام انتخابات کی رہی سہی کریڈیبلٹی بھی جاتی رہے گی۔ ماضی میں عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی پارٹیوں کا نقصان ہی ہوا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زیرسایہ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کا پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی سے واپس آئی تھیں تو لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا لیکن ان کے آنے کے چند ماہ بعد جہانگیر بدر مرحوم جو غالباً اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے میرے پاس آئے وہ سخت پریشان تھے کہ جونیجو لیگ کو پذیرائی مل رہی ہے پیپلزپارٹی کا امیدواروں کے حوالے سے حال پتلا ہے۔ اس وقت یہ تاثر جاگزین کر گیا تھاکہ جب تک ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہیں وہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ قسمت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا اور محمد خان جونیجوکی ضیاء الحق کے ہاتھوں برطرفی اور چندماہ بعد ان کی پراسرار فضائی حادثے میں ہلاکت نے سیاسی حالات یکسر تبدیل کر کے رکھ دیئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء کے انتخابات میں معمولی اکثریت کے سا تھ وزیراعظم بن گئیں ۔ یہ کہاجا سکتا ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کازوال 1985ء کے انتخابات کے بائیکاٹ سے ہی شروع ہوا تھا اورغیر جماعتی انتخابات کی کوکھ سے جنم لینے والے نئے سیاستدان پنجاب پر چھا گئے ۔ 2008ء کے عام انتخابات میں عمران خان سے بہت بڑا ہاتھ ہوا جب میاں نواز شریف نے آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود یکطرفہ طور پر مسلم لیگ (ن) کو انتخابی میدان میں اتار دیا تھا۔نومبر 2007 ء میں پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینے والے تحریک انصاف،جماعت اسلامی، تحریک استقلال سمیت 23 جماعتوں پر مشتمل اتحاد اے پی ڈی ایم نے ماڈل ٹاؤن میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ عدلیہ کو 2 نومبر 2007 ء کی پوزیشن پر بحال نہ کیا گیا تو اتحاد میں شامل کوئی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے گی ۔اس وقت نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کو بھی بائیکاٹ پر آمادہ کرنے کیلئے اپنی سربراہی میں قاضی حسین احمد،عمران خان،عابد حسن منٹو اور نوابزادہ نصراللہ پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی لیکن کچھ روز بعد ہی نواز شریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لئے بغیر ہی مسلم لیگ ن کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں اتحاد میں شامل تحریک انصاف سمیت کئی جماعتیں انتخابی میدان سے آؤٹ ہو گئیں۔گویا کہ جو بھی سیاسی جماعت الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتی ہے اس کے لیے یہ سودا گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی شکایات کے باوجود کہ انھیں عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہا، ان کے امیدواروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے ان کے لیے بائیکاٹ کا فیصلہ گھاٹے کا سودا ہو گا اور وہ یقینا ایسا نہیں کریں گے۔ لگتا ہے کہ ان دعوؤں اور مختلف سروے کے باوجود جن کے مطابق مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری ہے موجودہ حالات میں شاید مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن میں ہی بیٹھنا پڑے جس کے لیے انھیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔