عام حالات میں اب تک انتخابی مہم اپنے عروج پر ہونی چاہیے تھی۔ سیاسی جماعتیں اور اُن کے امیدوار کارنر میٹنگز کررہے ہوتے، گھرگھرجاکر ووٹروں سے رابطہ کرتے اور الیکشن کے دن کی پلاننگ کرتے ۔ اس وقت کہنے کو تو نگران انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا نیٹ ورک موجودہیں لیکن ان کا کوئی جاندار کردار دکھائی نہیں دیتا۔ ہر طرف افراتفری کی سی فضا ہے۔ جن کے فرائض کچھ اور تھے، سیاسی عمل کی کڑی نگرانی کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں سات تشویش ناک عوامل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلا پریشان کن عامل سب جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے مطالبے کا زور پکڑنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی شکایت کی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم اس مرتبہ پی ایم ایل(ن) اور پی پی پی نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر نام لیے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ان الزامات میں مبالغہ آرائی ہو لیکن ان کا اعادہ جمہوریت اور ملکی اداروں کے لیے کسی طور اچھا نہیں۔ سیاست میں تاثر اہمیت رکھتا ہے ۔ اداروں کو خیال رکھنا چاہیے کہ ا ن کے حوالے سے جنم لینے والی قیاس آرائیاں ملکی سکیورٹی کے لیے بہتر نہیں۔ دوسرا، ایک عدالتی فیصلے نے نوازشریف اور اُن کی بیٹی کو سیاسی میدان سے رخصت کر دیا ہے ۔ اس پر نہ صر ف بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں، بلکہ عوام، خاص طور پر پنجاب میں، جمہوری عمل اور اداروں کے کردار کا ناقدانہ نظروں سے جائزہ لینا شروع ہوگئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی رسہ کشی میں اداروں غیر جانبدار ہونے کے تصور کو زک پہنچی ہے ۔ فیصلے کے علاوہ بعض حضرات کے بیانات اور برتائوسے ایسا تاثر ملتا ہے کہ سب جماعتوں کو فعالیت کے یکساں مواقع میسر نہیں ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید بہت تیزو تند ہے ۔ اس وقت یہ تاثر گہرا ہے کہ احتسابی عمل کو ایک چھڑی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری کو ملوث کرنے والے منی لانڈرنگ کے حالیہ کیس پر غور کریں۔ سپریم کورٹ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اچانک آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ کو طلب کیا۔ لیکن بعد میں میڈیا پر شور اٹھنے اور قیاس آرائیوں کے بعد کیس کو التوا میں ڈال دیا گیا ۔ یہ بات تاحال واضح نہیں کہ کیا سابق صدر کے ساتھ کوئی ڈیل طے پائی ہے یا اچانک احتساب نے انگڑائی لی تھی ، گو یہ جنبش مختصر ثابت ہوئی ۔ اس سے یہ تاثر ضرور گیا کہ احتساب بیورو کی فعالیت من پسند اور مخصوص اہداف کے خلاف ہے ۔ تیسراتشویش ناک عامل دہشت گردی کی ہلاکت خیز لہر کا پھر سے ابھرنا ہے۔ بنوں، پشاور اور مستونگ میں دہشت گرد حملوں میں سینکڑوں شہری جاں بحق ہوگئے۔ انتخابات کے قریب ان واقعات کا پیش آنا خطرناک پیش رفت ہے ۔کچھ حلقے ان حملوں کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت ان اداروں کو اپنے اصل کام کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی یہ صورت ِحال2013 ء کی یاد دلاتی ہے جب انتخابات سے پہلے ایسے ہی حالات تھے ۔ ان حملوں کا نشانہ بننے والی مخصوص جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں۔ اُن کے ووٹر بھی پولنگ اسٹیشنز سے دور رہتے ہیں۔ خوف کی وجہ سے عام شہری انتخابی عمل کا حصہ بننے کے لیے گھروںسے نہیں نکلتے ۔ حالیہ پر تشدد حملوں کے بعد آرمی چیف جنرل باجوہ نے دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہ بات اہم ہے ۔ ایک مرتبہ پھر ملک قیام ِامن کے لیے فوج کی طرف دیکھنا شروع ہوگیا ہے ۔ چوتھی تشویش ناک بات نگران انتظامیہ کی فعالیت ہے ۔ مرکز اور صوبوں میں نگران انتظامیہ غیر موثر ثابت ہورہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن سے پہلے کے ضروری انتظامات پر اُن کا کنٹرول نہیں ۔ چاہے یہ تیرہ جولائی کو نواز شریف کی وطن واپسی پر صورت ِحال کو ہینڈل کرنے ، یاپنجاب میں پی ایم ایل (ن) کے کارکنوں کے خلاف کیے گئے کریک ڈائون کا معاملہ ہو، اس کے لیے دکھائی گئی فعالیت نے منفی تاثر ابھارا ہے۔ کارروائی کے الٹے اثرات نمودار ہوئے ۔ بہت سے افراد نے سوال اٹھایا کہ اگرکچھ ہزار افراد اپنے سزا یافتہ رہنما کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ تک پہنچ جاتے تو کیا قیامت آجاتی ؟ پنجاب کی نگران حکومت اس صورت ِحال سے نمٹنے کے لیے بوکھلائی ہوئی دکھائی دی۔ یہی وجہ ہے کہ نگران سیٹ اپ کے لیے سیاست دانوں کو چننا چاہیے ، نہ کہ ناتجربہ کار اساتذہ اورریٹائرڈ سرکاری افسران کو۔ پانچواں ، میڈیا انڈسٹری، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی ساکھ انتہائی پستی پر چلی گئی ہے ۔ بہت سے صحافی حضرات کو شکایت ہے کہ اُن کے مالکان ، ٹی وی چینلز اُن کے مواد کو نشر ، یا شائع نہیں کرتے حالانکہ اُنھوںنے بہت محنت سے وہ مواد جمع کیا، یا لکھا ہوتا ہے ۔ ٹی وی سے وابستہ کم از کم تین صحافیوں کا کہناہے کہ اُنہیں ’’ہدایات ‘‘ ملی تھیں۔ یہ ہدایات کو ن جاری کررہا ہے ، اور کیوں؟یہ سوالات بہت اہم ہیں۔ طاقتور او ر متحرک سوشل میڈیا کی موجودگی میں یہ سوالات مزید اہمیت اختیار کرجاتے ہیںکیونکہ سوشل میڈیا کی موجودگی میں روایتی میڈیا پر قدغن بے معانی ہوجاتی ہے ۔ بلکہ اس سے ملک میں کنفیوژن بھی پھیلتا ہے ۔ تاہم یہ میڈیا کی اپنی صفوں میں عدم اتفاق کا نتیجہ ہے جو اسے دیوار کے ساتھ لگادیا جاتا ہے ۔ آزاد میڈیا کے بغیر منصفانہ انتخابات ناممکن ہیں۔ چھٹا، الیکشن کمیشن پولنگ کے انتظامات کو حتمی شکل دے رہا ہے ۔ اس مقصد کے لیے 370,000 سکیورٹی اہل کاروں کو تعینات کیا جارہاہے ۔ اگر یہ کوئی تشویش ناک امر نہیں تو بھی کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ اہل کاروں کی سب سے بڑی تعیناتی ہے ۔ اسی طرح سکیورٹی افسران کو دیے گئے اختیارات بھی زیر ِ بحث ہیں۔ درحقیقت افسران کو جوڈیشل اختیارات دینے سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مشرف دور میں اختیارات کی علیحدگی کی اصلاحات متعارف کرانے کے بعد اس سے گریز کیا جاتا تو بہتر تھا۔ آخرمیں، سیاسی جماعتوں کی اپنی صفوں میں پھیلی ہوئی کھلبلی ، ان کی طرف سے میڈیا کی آزادی کے لیے اسٹینڈ لینے ، اور سیاسی جماعتوں اور کارکنوں پرکریک ڈائون کی مذمت کرنے میں ناکامی کے بعد حالات شفاف انتخابات کے لیے سازگار دکھائی نہیں دیتے ۔ سیاسی جماعتوں کی یہ ناکامی قانون کی بجائے افراد کی حکومت کا راستہ ہموار کرتی ہے ۔ اپنی کمزوری سے سیاسی جماعتیں خود ہی نادیدہ طاقتوں کو انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا موقع دے رہی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہیں ، چاہے اس کے لیے کتنے ہی اصولوں کی قربانی کیوںنہ دینا پڑے۔ اس حوالے سے پارٹیوں کے اعلان کردہ منشور غیر اہم ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی عوامی مقبولیت کو ہر صورت برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ چنانچہ انتخابات جیتنے اور حکومت سازی کے لیے ڈیلز خارج ازامکان نہیں۔ اس وقت پی ایم ایل (ن) کے کارکنوں پر ہونے والے کریک ڈائون نے اس جماعت کی روایتی سیاسی جہت کا رخ تبدیل کردیا ہے ۔ نواز شریف جیل میں ہیں، لیکن پنجاب کے شہری علاقوں کی سیاسی حرکیات تبدیل ہورہی ہیں۔ اس وقت ہم ملکی سیاست کے ایسے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جس سے اس سے پہلے ہماری نظریں آشنا نہیں تھیں۔ خدشہ ہے کہ کچھ ادارے ابھی تک اس کا ادراک نہیں کرپائے ہیں، اور اُن کی نظریں ریلی کے شرکا کی تعداد پر ہی مرکوز ہیں۔ تاثرات کا تعلق تعداد سے نہیں، تعدد سے ہوتا ہے ۔ اور ہمیں اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے ۔