مکرمی !عمران خان صاحب کی چند ایک پالیسیو ں سے لاکھ اختلاف سہی مگر بہت سی باتوں سے اتفاق بھی ہے۔ 1997 میں جب خان صاحب نے باقائدہ طور پر عملی سیاست کا آغاز کیا تو بہت مشکل حالات کا سامنا کیا ،بہت تنقید ہوئی،اناڑی سیاست دان کے تانے ملے ایسے حالات میں اگر کوئی اور بندہ ہوتا تو وہ کب کا خیر باد کہہ چکا ہوتا کبھی کبھی یہ خیال بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ جس بندے نے پوری دنیا میں دولت ،عزت،شہرت کمائی ہو اس کو عام لوگوں کے تانے اور تنقید برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی لیکن2011ء میں وہ وقت بھی آگیا جب خان صاحب کی مستقل مزاجی ،لگن اور محنت رنگ لے آئی اور انہوں نے مینار پاکستان میں ایک کامیاب جلسہ کر کے اپنا لوہا منوایا ۔ جب شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تو انٹر نیشنل میڈیکل بورڈ نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ پاکستان میں کینسر کا ہسپتال بن سکے مگر خان صاحب نے ہر ممکن کوشش کر کے پاکستان میں پہلا انٹر نیشنل لیول کا ہسپتال بنا کر انٹر نیشنل میڈیکل بورڈسمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا ،ایجوکیشن کے میدان میں نمل یونیورسٹی بنا کر بین الاقوامی لیول کی تعلیم کوپاکستان میں ممکن کیاجس کی وجہ سے کم خرچ میں اعلیٰ معیار کی ڈگری حاصل کی جاتی ہے۔ یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ خان صاحب نے جتنا شعور پاکستانی عوام کو دیا ہے اتنا شعور کسی نے بھی نہیں دیا اور اب وقت یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ ناصرف کرکٹ کے ہی بہترین کھلاڑی تھے بلکہ سیاست کے بھی بہترین کھلاڑی ہیں۔ (کرامت مسیح،لاہور)