انتخابات سر پرہیں اور انتخابات کے اس حمام میں سبھی قائدین کرام ننگ دھڑنگ کھڑے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جودوسروں پر اخلاقی برتری کا کوئی دعوی کر سکے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ کسے کتنا موقع ملا۔ جس اعلی حضرت کو جتنا موقع ملا وہ اتنا ہی بے نقاب ہوا۔ اب یہ کسی اصول ، اخلاقیات یا اعلی مقاصد کی تگ و دو کم اور ایک تماشا زیادہ لگ رہا ہے۔ جس نے اچھی ڈگڈگی بجا لی وہ مجمع لگا لے گا اور جس نے مجمع لگا لیا اسے پانچ سال کے لیے قومی خزانے کو چراگاہ سمجھ کر معاملہ کرنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ دنیا داروں اور گناہ گاروں کی بہت بات ہو چکی کہ چار چار حلقوں سے کھڑے ہو رہے ہیں اور قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور اپنے ووٹر کے شعور کا مذاق اڑاتے ہیں۔آج ذرا نیک ناموں سے آغاز کرتے ہیں ۔جو دنیا سے بے زار ہیں۔ جو سادگی کا نمونہ ہیں۔جو درویش ہیں۔ یہ اس وقت سینیٹر ہیں۔ یعنی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن۔سینیٹر سراج الحق۔یہ مارچ 2021ء تک سینیٹر رہیں گے۔یہ معلوم انسانی تاریخ کے پہلے درویش ہیں جو ایوان بالا کا رکن ہونے کے باوجود ایوان زیریں کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی میں کوئی ایک بندہ ایسا نہیں جو ان سے کہہ سکے کہ امیر محترم آپ پہلے ہی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن ہیں اب قومی اسمبلی کی نشست پر کسی اور کو موقع دیجیے ۔ کسی ایک بندے نے اپنے امیر سے سوال نہیں پوچھا کہ جناب ذرا وضاحت تو فرمائیے سینیٹ کا رکن ہوتے ہوئے آپ کو قومی اسمبلی کا رکن بننے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ آپ کی دلچسپی قومی اسمبلی میں تھی تو آپ سینیٹر کیوں بنے؟ اور اب آپ سینیٹر بن چکے تو قومی اسمبلی کی محبت میں کیوں دبلے ہوئے جا رہے ہیں؟کوئی یہ گستاخی نہ کر سکا کہ آپ کو قومی اسمبلی زیادہ پسند تھی تو سینیٹ میں خود جلوہ افروز ہونے کی بجائے پروفیسر ابراہیم جیسے نفیس انسان کو بھیج دیا ہوتا۔ انتخابی قوانین کے کمالات دیکھیے۔ بلدیاتی نمائندوں سے اول اول کہا گیا کہ وہ انتخابی مہم سے دور رہیں ۔ان کا انتخابی مہم میں شریک ہونا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی ادارے معطل کر دیے گئے تا کہ مقامی حکومتوں کے منتخب یہ کونسلر اور چیئر مین حضرات انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔اب تماشا یہ ہے کہ یونین کونسل کے ممبران پر تو پابندیاں لگا دی گئی ہیں ، اب یہ الگ بات کہ ان پابندیوں پر کتنا عمل ہو رہا ہے لیکن ایک ضابطہ اخلاق تو بنا دیا گیا۔ لیکن دوسری طرف پارلیمان کے ایوان بالا سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ ایک کونسلر تو انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتا لیکن ایک سینیٹر نہ صرف انتخابی مہم کی قیادت کر رہا ہے بلکہ وہ سینیٹر ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ رہا ہے۔ بلدیاتی ادارے تو الیکشن تک معطل ہو گئے لیکن سینیٹ کو کوئی معطل بھی نہیں کر سکتا۔ انتخابی مہم بھی جاری ہے اور سینیٹ کے اجلاس بھی۔کیا الیکشن کمیشن اس راز سے پردہ اٹھا سکتا ہے کہ ایک کونسلر کے لیے تو قانون بنا دیا گیا ، سینیٹرز کے لیے کیوں نہیں بنایا جا سکا؟ قانون کس طرح ایک مخصوص طبقے کی باندی بنا دیا گیا ہے ذرا اس کا بھی جائزہ لے لیجیے۔فرض کیجیے سراج الحق قومی اسمبلی کا الیکشن ہار جاتے ہیں۔کیا آپ کو معلوم ہے اس صورت میں کیا ہو گا؟ وہ اگلے ہی روز اپنی چادر جھاڑیں گے اور جا کر سینیٹ میں بیٹھ جائیں گے۔اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جب کوئی سینیٹر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہے تو اس کے لیے لازم ہو وہ پہلے چیئر مین سینیٹ کو اپنا استعفی پیش کرے اور اس کے بعد الیکشن میں حصہ لے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ سینیٹ جیسا ادارہ مذاق نہ بن جائے ، یہ اس لیے بھی لازم تھا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بار بار الیکشن کروا کر انوکھے لاڈلوں کے لاڈ نہ اٹھائے جائیں اور اس کی ایک افادیت یہ بھی تھی کہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں کسی امیدار کو دوسرے امیدوار پر کوئی برتری نہ ہو جو الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہو سکے۔یہ مقابلہ عام شہریوں کے درمیان ہو کسی عام شہری کا مقابلہ کسی موجودہ سینیٹر سے نہ ہو۔لیکن ہمارے ہاں قانون اشرافیہ کے مفادات کی فصیلوں پر پہرہ دیتا ہے ۔چنانچہ قانون یہ بنایا گیا ہے کہ سینیٹر بھائی جان قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہیں تو سینیٹ سے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں۔اگر وہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت جاتے ہیں تو سینیٹ سے استعفی دے دیں اور اگر ہار جاتے ہیں تو ملک وقوم کی خدمت کے لیے واپس سینیٹ میں تشریف لا سکتے ہیں۔ یہ ایک بہتی گنگا ہے جس میں سب نہا رہے ہیں۔ جو مفادات کی سیاست کرتے ہیں وہ بھی اور جو بقلم خود اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کوشاں ہیں وہ بھی۔اقوال زریں سنانے پر آ جائیں تو ہمارے جملہ قائدین انقلاب دیوان کے دیوان پڑھ ڈالیں لیکن مفادات کا تقاضا ہو تو اسی بہتی گنگا میں ڈبکی لگا لیتے ہیں اور ذرا بھی بد مزہ نہیں ہوتے۔ہم محمود اچکزئی کو روتے تھے کہ اقتدار ملا تو گورنر کے لیے اپنے ہی بھائی کے علاوہ صاحب کی نظروں میں کوئی نہ جچا۔ اب ذرا دیکھیے فضل الرحمن صاحب کے کتنے رشتہ داروں کو ٹکٹ ملے؟ لاہور میں غریبوں کے بچے جم جم جمعیت کرتے تعلیمی اداروں میں لڑتے جھگڑتے رہے لیکن اسمبلیوں تک پہنچنے کی تگ و دو شروع ہوئی تو قرعہ فال قائدین کے صاحبزادوں کے نام نکلا۔ انتخاب نہیں ہو رہے ایک تماشا لگا ہے۔کسی کو اپنے اخلاقی وجود کا احساس نہیں۔ ملک امین اسلم نے گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی طرف سے 56 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے۔ ابھی ایک مہینہ نہیں ہوا عمران خان نے بھری محفل میں کہا یہ ہمارے وزیر ماحولیات ہوں گے۔ اب نہ انہیں ٹکٹ ملا ہے نہ سہیل کمڑیا ل کو۔ ضلع اٹک کی دونوں نشستیں میجر طاہر صادق کو دے دی گئیں جو ق لیگ سے ادھر تشریف لائے ہیں۔جہلم کی ایک نشست پر فواد چودھری ہیں دوسری پر ان کے کزن۔چکوال سے ذوالفقار دلہہ اسی الیکشن میں کچھ دن پہلے تک مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے ۔ پھر اچانک وہ تحریک انصاف میں آ گئے اور اب وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ایک رات ووٹر سوئے تو دلہہ صاحب کہہ رہے تھے ووٹ کو عزت دو صبح ہوئی تو وہ گنگنا رہے تھے صاف چلی شفاف چلی۔انتخاب عالم ق لیگ سے جماعت اسلامی میں آئے جماعت اسلامی نے ٹکٹ نہیں دیا تو آزاد کھڑے ہو گئے ۔مسلم لیگ نے کہا ادھر آئیے یہ رہا ٹکٹ۔ ایک سیٹ پر پرویز خٹک ہیں دوسری پر ان کے داماد عمران خٹک۔این اے تیس چارسدہ سے تو یہ تماشا لگا ہے کہ تحریک انصاف کے ارباب شیر علی،پی پی کے ارباب عالمگیر اور ایم ایم اے کے ارباب نجیب اللہ تینوں کزن ہیں۔ ارباب کمال جے یو آئی کے تھے اس دفعہ انہیں اے این پی نے ٹکٹ دے دیا۔سرگودھا کی نشستوں کا عالم یہ ہے کہ کسی ایک پر بھی تحریک انصاف کا اپنا امیدوار نہیں۔عامر چیمہ ق لیگ سے لیے گئے۔ ندیم چن پیپلز پارٹی سے۔ اسامہ میلہ ق لیگ کے غیاث میلہ کے بیٹے ہیں۔نادیہ عزیز پی پی سے ن لیگ پہنچیں وہاں سے اب تحریک انصاف نے لے لیں۔یہی معاملہ نعیم الحسن صاحب کا ہے۔ گویا پورے ضلع میں پارٹی کے پاس ایک بندہ نہیں تھا جو کھڑا کرتی۔ ادھر ادھر سے بندے توڑ کے کام چلایا گیا۔کس کس جماعت کی بات کی جائے اور کہاں تک کی جائے؟ مال غنیمت کا جھگڑا ہے اور تماشا لگا ہے۔ کون سا اصول اور کاہے کے نظریات؟ ہر رہنما کے حصے میں آنے والے بیوقوف البتہ ایک دوسرے کو گالیں دے رہے ہیں اور باہم الجھ رہے ہیں۔اقدار ، شرافت اور وضع داری منہ چھپائے رو رہی ہیں اور کیوں نہ روئیں؟ آخر الیکشن ہو رہا ہے۔