چیف الیکشن کمیشن اور ممبران کی تعیناتی کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن ڈاکٹر شیریں مزاری کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ جس میں حکومتی نمائندوں اور اپوزیشن ارکان کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ جس کے بعدمتحدہ اپوزیشن نے چیف الیکشن کمیشن اور ممبران کی تعیناتی نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار آئینی ادارہ ہے، جو ملک میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کروانے کا ذمہ دار ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کے اثاثوں کی چھان بین اور امیدواروں کی جانچ پڑتال اس کے فرائض میں شامل ہے۔ الیکشن کی تیاری کی نگرانی کرنا‘ حلقہ بندیاں کرنا‘ نااہلی کی درخواستوں پر فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ دینا جیسے امور بھی اس کے ذمہ ہیں۔ آئین کی شق 218(2) کے تحت الیکشن کمیشن پانچ افراد پر مشتمل ہوتا ہے ،جس میں ایک چیف الیکشن کمیشن اور چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن شامل ہوتا ہے ۔جبکہ شق 218(2)(ب)کے تحت ہی الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا طریقہ کار وہی ہے جو آئین کی شق 213(A2) اور (B 2) کے تحت الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا ہے یعنی وزیر اعظم پاکستان کو الیکشن کمیشن یا ارکان کی تعیناتی کے لئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے تین افراد کے نام 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجیں گے ۔پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے چھ چھ ارکان ہوتے ہیں پھر پارلیمانی کمیٹی ان تین ناموں میں سے کسی ایک نام پر اتفاق رائے قائم کر کے صدر کے پاس بھیجتی ہے اس کے بعد ہی صدر پاکستان ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتے ہیں۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کو ازخود اس تعیناتی کا اختیار نہیں ہے وہ صرف پارلیمانی کمیٹی کے فائنل کردہ نام کی تعیناتی کرنے کے مجاز ہیں۔ آئین میں مشاورت کا پورا ایک طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود بھی اگر سیاسی جماعتیں اس پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکتیں تو اسے بدقسمتی ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس ٹیکنالوجی نے بھی یہی کہا ہے کہ اگر سیاستدان اتنے ناپختہ ہیں کہ الیکشن کمیشن کے لئے ایک شخص پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکتے تو وہ ملک کے بڑے مسائل پر کیا اتفاق رائے پیدا کریں گے۔ سیاستدانوں کو اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہیے۔ اگر یہی سلسلہ برقرار رہا تو پھر پورے ملک کا نظام چلانا ،نئی قانون سازی کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے جیسے بڑے کام یہ کیسے کر پائیں گے۔ سیاسی جماعتیں اگر اپنے مسائل ہی پارلیمنٹ میں حل نہیں کر سکتیں تو پھر 21کروڑ عوام کے مسائل وہ کیسے حل کر سکیں گی۔ اپوزیشن لیڈر کو جب اس بات کا علم ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے مابین باہمی مشاورت کے بعد ہی الیکشن کمیشن اور اس کے ممبران کی تعیناتی ہو گی تو انہوں نے اس سلسلے میں اپنی طرف سے پہلے نام کیوں نہیں بھیجے؟ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے عین چار پانچ روز قبل نام بھیجنا بادی النظر میںاس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بذات خود الیکشن کمیشن کو غیر فعال کرنے کے درپے تھے ۔ اگر ایسی بات نہیں تو پھر انہیں کم از کم ایک ماہ قبل نام بھیج کر مشاورت کا سلسلہ شروع کر دینا چاہیے تھا۔ اپوزیشن لیڈر اگر واقعی تاخیری حربے نہیں آزما رہے تو پھر پارلیمانی کمیٹی کی جاری میٹنگز کے دوران متحدہ اپوزیشن کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنا کون سی عقلمندی ہے اگر پارلیمانی کمیٹی کے مابین اتفاق رائے قائم نہیں ہوتا تو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں کوئی قباحت نہ تھی لیکن اپوزیشن جماعتیں جس سرعت سے عدالت گئی ہیں اس سے بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ اگر عدالت نے ہی کرنا ہے تو پھر الیکشن کمیشن بارے قانون سازی کرنے کا کیا فائدہ ہوا ہے؟ عدالت کا فیصلہ ایک پارٹی کے حق میںجبکہ دوسرے کے خلاف آئے گا۔ مخالفت میں فیصلہ آنے والی پارٹی کے دل و دماغ میں عدالت کے بارے اچھے تاثرات قائم نہیں ہونگے یہ صورت حال کسی بھی طور درست نہیں۔ اب بھی وقت ہے متحدہ اپوزیشن اس طرز عمل پر نظرثانی کرتے ہوئے درخواست واپس لے۔عدالت کا دروازہ تب کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ جب صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو جائے۔ قبل از وقت عدالت میں چلے جانا سیاستدانوں کی ناکامی پر دلالت کرتا ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر کی ملک میں موجودگی بھی ازحد ضروری ہے۔ اپوزیشن لیڈر اگر پارلیمنٹ کو وقت نہیں دے سکتے تو انہیں اس عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے اورکسی ایسے آدمی کو یہ عہدہ سونپا جائے جو ملک میں رہنے کو ہی ترجیح دے تاکہ قانون سازی میں کسی قسم کی دشواری نہ آئے۔ اگر اپوزیشن لیڈر اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس لندن میں بلائے گا تو دنیا بھرمیں ہمارے بارے کیا تاثر قائم ہو گا۔ ایک طرف مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں،دوسری طرف اپوزیشن بیرون ملک بیٹھ کر ملکی تقدیر کے فیصلے کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو موقف میں نرمی برتنے کا کہیں اور کوشش کریں کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ہی چیف الیکشن کمیشن اور اس کے دو ارکان کا تقرر ہو جائے۔ اب تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی دس دن میں ممبران کی تقرری کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔سیاسی اختلافات اس سطح پر نہیں جانے چاہیں جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ سرے سے ہی برقرار نہ رہے۔ اگر الیکشن کمیشن کا معاملہ عدالت کے ذریعے حل ہوا تو پھر ہر مسئلے کے لئے عدالت جانے کی روایت بن جائے گی، جو جمہوریت اور جمہوری پارٹیوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن باہمی افہام و تفہیم سے مسائل حل کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔